کھلاڑیوں کی توجہ ماڈلنگ پر

آج کل مختلف گیمز کے کھلاڑی اور معروف فلمی اور ٹیلیویژن  اداکار کھلاڑی اور اداکار کم دکھائی دیتے ہیں  اور اشتہاری ایجنسیوں کے ماڈل زیادہ‘ جو تجارتی اداروں کی پراڈکٹس products  کو خریدنے کے لئے صارفین کو اشتہاروں کے ذریعے ترغیب دے رہے  ہیں‘یہ لوگ آج کل  اس طریقہ کار سے ہر ماہ کروڑوں روپے کما رہے ہیں اور یا وہ زمانہ بھی تھا کہ کئی کرکٹ کے کھلاڑیوں کے پاس کرکٹ کھیلنے کے لئے شوز خریدنے کے پیسے بھی نہ  ہوتے تھے‘ اگر آج اس طریقے سے ہمارے کھلاڑی اور اداکار کروڑوں میں کھیل رہے ہیں تو  یہ خوشی کی بات ہے‘پر انکم ٹیکس  والوں کو  یہ ضرور  دیکھنا چاہیے کہ کیا  وہ اپنی انکم کے مطابق انکم اور ویلتھ ٹیکس بھی  سرکار کو ادا کر رہے ہیں یا نہیں‘کرکٹ کے کھیل میں تو بال ٹیمپرنگ وغیرہ جیسے حربوں سے کرپشن بھی  پیدا ہوئی ہے اور کئی نامور کھلاڑی گرفتار ہو کر جیل کی ہوا بھی کھا چکے ہیں۔‘سٹہ بازوں نے اس کھیل  میں قدم جما لئے ہیں باوجود اس کے کہ  انٹر نیشنل کرکٹ کے کرتا دھرتا کرکٹ سے کرپشن ختم کرنے کے واسطے سخت اقدامات اٹھا رہے ہیں‘ جس دن سے ون ڈے اورٹونٹی ٹونٹی نے کرکٹ کی دنیا میں قدم رکھا ہے‘یہ کھیل حد درجہ کمرشلائز ہو گیا ہے۔ وطن عزیز میں لوڈ شیڈنگ نے حکومت  کے واسطے امن عامہ کا ایک بہت  بڑا مسئلہ پیدا کر دیا ہے‘ آ ئے دن متاثرہ لوگ سڑکوں پر پرتشدد مظاہرے کر رہے ہیں جو کسی وقت بھی  حکومت کے لئے خطرناک شکل اختیار کر سکتے ہیں‘ بلا شبہ اس مسئلہ کا حل نکالنا ارباب اقتدار کا بہت بڑا امتحان ہو گا۔جب تک ملک میں دستیاب پانیوں پر ڈیم نہیں بنتے سولر اور ونڈ جیسے غیر روایتی طریقہ کار کو بروئے کار لا کر بجلی کی کمی پوری کرنا ہو گی۔ایران میں ہر پبلک آ فس کے انتخاب سے پہلے اس میں حصہ لینے والے خواہش مند امیدوار کے کریکٹر کو کھنگالا جاتا ہے اور اس کے ماضی کی چھان بین کی جاتی ہے‘وہ اتنا جامع اور فول پروف ہے کہ اس میں  صرف اور صرف اہل افراد کو ہی الیکشن لڑنے کی اجازت ملتی ہے۔ پچھلے چند دنوں سے ایران میں نئے صدر کے انتخاب کے لئے خواہش مند امیدواروں کو جانچ پڑتال کی چکی سے گزارا گیا ہے۔ سعودی عرب نے اپنی سکیورٹی کے لئے امریکہ سے  ایک   نیا معاہدہ تو کر لیا ہے پر خدا لگتی یہ ہے کہ اس قسم کے معاہدوں کے بجائے اگر ترقی پذیر ممالک اپنے اپنے ملکوں میں اپنے تعلیمی نظام کو جدید خطوط پر استوار کر کے اس قسم کے ترقیاتی ماڈل وضع کریں کہ جو چین نے 1949 ء کے بعد بنائے تھے تو وہ اپنے پاؤں پر خود کھڑے ہو کر بیرونی ممالک کی فراہم کردہ بیساکھیوں سے اپنی جان چھڑا سکتے ہیں۔ آج کل  قومی ائر لائنز پی آئی  اے کی نجکاری ہونے جا رہی ہے جو یقینا ان لوگوں کے لئے پریشان کن  بات ہے کہ جنہوں نے اپنی ائر لائنز کے اچھے دن دیکھے ہیں کہ جب وہ دنیا میں پاکستان کی پہچان ہوا کرتی تھی‘بہت کم لوگوں کو پتہ ہے کہ مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک کی ائر لائنز جو دنیا کی ائر لائن انڈسٹری پر آج چھائی ہوئی ہیں‘ان کو بنانے میں پی آئی اے کے ٹیکنیکل سٹاف کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔


‘ایک وفاقی وزیر عبد العلیم خان کا یہ کہنا بالکل سو فیصد درست ہے کہ پی آئی اے کی موجودہ  مالی زبوں حالی کی ذمہ دار  وہ تمام حکومتیں ہیں جو ماضی میں وطن عزیز میں برسر اقتدار تھیں اور اب اس کی نجکاری کے بغیر اس کا کوئی علاج نہیں‘ پر اس ضمن میں یہ بات کرنا ضروری ہے کہ نجکاری کا عمل بڑا شفاف ہونا ضروری ہے‘ کہیں ایسا نہ مو کہ اسے اونے پونے داموں بیچ دیا جائے کیونکہ ماضی میں حکومتوں نے کئی  اداروں کو اپنے منظور نظر لوگوں کے ہاتھ بہت کم قیمت پر فروخت کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔