جیٹھ کامہینہ ختم ہو چکا‘اب ہم ہاڑ کے ماہ سے گزر رہے ہیں‘ یہ بھی جیٹھ کی طرح خشک گرمی کا ماہ ہوتا ہے‘ بارشوں کی جھڑی تو کہیں ساون میں جا کر لگتی ہیجوہاڑ کے بعد کا مہینہ ہے‘ امسال البتہ موسمیاتی تبدیلی نے یہ سب کچھ تلپٹ کر دیا ہے‘ ہو سکتا ہے ماہ رواں میں بھی بارشیں ہو سکتی ہیں اور گلیشیرز کے پگھلنے سے نشیبی علاقوں میں سیلاب بھی آ سکتے ہیں۔اس جملہ معترضہ کے بعد تازہ ترین اہم قومی اور عالمی امور پر طائرانہ نظر ڈالنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔گزشتہ کئی دنوں سے ملک میں وفاقی اور صوبائی سالانہ بجٹوں کے ہی چرچے رہے ہیں‘ بجٹ دستاویزات میں جو ثقیل زبان استعمال ہوتی ہے وہ تو اتنی ٹیکنیکل ہوتی ہے کہ وہ عام آدمی کی سمجھ سے بالاتر ہوتی ہے‘ضرورت اس امر کی ہے کہ بجٹ کے خدوخال کو عام فہم زبان میں پیش کیا جائے۔ اگر پلاننگ کمیشن یا وزارت خزانہ یہ کام نہیں کر سکتے تو کم از کم ٹیلی ویژن چینلز تو یہ کام سر انجام دے سکتے ہیں۔انگریزی زبان میں ایک لفظ ہے confusion worse confounded یعنی الجھن بدتر الجھن‘ بجٹ دستاویزات پڑھ کر اس ملک کا عام باسی اسی قسم کی ہی الجھن میں پڑ جاتا ہے۔جہاں تک ملک کی معشیت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کا تعلق ہے وہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ حصہ بقدر جثہ کے فارمولے پر عمل پیرا ہو کر عوام سے ٹیکس وصول کیا جائے اور اس معاملے میں کسی کو مقدس گائے نہ سمجھا جائے اور پھر جتنی چادر ہو اس کے مطابق ہی پاؤں پھیلائے جائیں‘ اس ملک کی معشیت کو بے جااسراف لے ڈوبا ہے۔ وزیر اعظم نے وفاقی حکومت کا حجم کم کرنے اور بیرون ملک مشنز کی کارکردگی بہتر بنانے کیلئے جو کمیٹیاں تشکیل دی ہیں وہ وقت کا تقاضا ہیں‘ نہ صرف وفاقی بلکہ صوبائی حکومتوں کا حجم کم کرنے کی ضرورت ہے جب تک ہم کم سے کم سرکاری عملے بھلے وہ کسی بھی وزارت میں کیوں نہ ہو‘سے زیادہ سے زیادہ کام لینے کا کلچر قائم نہیں کریں گے ہمارے غیر ترقیاتی اخراجات
میں کمی نہیں لائی جا سکے گی‘ اسی طرح بیرون ملک ہمارے جو سفارتی اہلکار کام کر رہے ہیں ان کی کارکردگی پر گہری نظر رکھ کر یہ دیکھنا ضروری ہے کہ کیا وہ ڈلیور بھی کر رہے ہیں یا نہیں۔چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ کا یہ کہنا بجا ہے کہ مقدمات نمٹانے میں وکلاء کا تعاون ناگزیر ہے حصول انصاف بار اور بینچ یعنی وکلاء اور ججوں کی قریبی کوارڈی نیشن سے ہی ممکن ہے‘ادھر بجٹ کے ہنگامہ خیز اسمبلی سیشن ختم ہوئے تو دوسری جانب ٹوینٹی ٹوینٹی ورلڈ کپ ٹورنامنٹ بھی اختتام پذیر ہوا کہ جس نے الیکٹرانک میڈیا پر ایک دھوم مچا رکھی تھی۔اب کچھ عرصے تک الیکٹرانک میڈیا پر اس بات کا پوسٹ مارٹم کیا جائے گا کہ آ خر ہم ہارے کیوں؟ اس کا سادہ جواب یہ ہے کہ جو ٹیم ہم نے چن کر اس ٹورنامنٹ میں بھیجی تھی وہ معیاری نہ تھی اور دوسری بات یہ ہے کہ وہ ڈلیور نہیں کر پائی اور ان ممالک کی ٹیموں سے بھی ہاری کہ جن کو دنیائے کرکٹ میں آ ئے ابھی جمعہ جمعہ آ ٹھ دن بھی نہیں ہوئے تھے اور کوئی انہیں جانتا تک نہیں تھا۔اور آ ئیے کالم کے اختتام پر آپ سے سوئٹزر لینڈ کے ایک ایسے ہسپتال کا ذکر کر دیں کہ جہاں موت خریدی جاتی ہے جو لوگ کسی ایسی جان لیوا بیماری میں مبتلا ہوں کہ جس سے ان کے موت سے بچ جانے کا کوئی چانس نہ ہو اور وہ سخت جسمانی تکلیف کا سامنا کر رہے ہوں‘یا وہ لوگ کہ جن کے ساتھی سنگی‘ دوست یار وفات پا چکے ہوں اور وہ قید تنہائی کا شکار ہو کر ڈپریشن میں مبتلا ہو چکے ہوں اور اس حالت میں مزید زندہ رہنے کے خواہش مند نہ ہوں تو وہ سوئٹزرلینڈ میں واقع ایک ہسپتال کہ جس کا نام dignitas ہے‘کا رخ کرتے ہیں‘وہاں ان کو پہلے ایک نشہ آ ور مشروب پلا دیا جاتا ہے کہ جس سے وہ بے ہوش ہوجاتے ہیں اور پھر ایک زہریلا انجکشن چڑھا دیا جاتا ہے کہ جس سے ان کے جسم و جاں کا رشتہ ٹوٹ جاتا ہے‘ہسپتال والے اس کاروائی ہر خرچ ہونے والے تمام پیسے اس شخص سے ایڈوانس میں وصول کر لیتے ہیں کہ جس کی اس دنیا سے رخصتی مقصود ہوتی ہے۔ ویسے تو دنیا میں بشمول سوئٹزرلینڈ خودکشی کرنا یا کسی کی خودکشی میں اس کی معاونت کرنا غیر قانونی عمل ہے مگر سوئٹزرلینڈ میں مندرجہ عمل کو قانونی تحفظ حاصل ہے۔