آئی ایم ایف سے گلو خلاصی

 وزیر اعظم  کے منہ میں گھی شکر‘خدا کرے کہ موجودہ آئی ایم ایف  پروگرام آخری ہو بھارت نے تو اس کو،1992 ء میں  ہی لپیٹ دیا تھا  ان کا یہ فیصلہ بڑا بروقت فیصلہ ہے کہ خسارے والی وزارتیں ختم کی جا رہی ہیں‘ ان کا یہ بیان بھی قوم کے دل کی آواز ہے کہ سادگی کو اوڑھنا بچھونا بنانا ہو گا‘بالفاظ دیگر ہم سب کو اسراف سے گریز کر کے قناعت کا چلن اپنانا ہو گا ‘پر اس کے واسطے مثال اشرافیہ کو قائم کرنی ہے کیونکہ عربی زبان کا ایک محاورہ ہے کہ رعایا بادشاہ کا چلن اپناتی ہے‘بھلے کوئی مانے یا نہ مانے‘مرکز میں شہباز شریف اور پنجاب میں مریم نواز نے اقتدار کے پہلے 100 دنوں میں اپنی اپنی اننگز کا آغاز اچھے انداز میں  کیا ہے جس دل جمعی سے وہ زندگی کے ہر شعبے میں کام کر رہے ہیں اگر اسی  جذبے کا مظاہرہ انہوں نے اپنے اس دور اقتدار میں کیا تو یقیناً ملک ان نا مساعد حالات سے باہر نکل آئے گا  کہ جس کا وہ سر دست بری طرح شکار ہے۔ قصہ کوتاہ ان دونوں کے پہلے سو دن میں سمت مثبت لگ رہی ہے۔ آج  وقت کا تقاضا ہے کہ تمام سیاسی رہنما اپنے اختلافات بالائے طاق رکھ کر تعاون کا مظاہرہ کریں۔ یہ تشویش کا مقام ہے کہ اس وقت دنیا کے امن کو جن تنازعات سے ازحد خطرہ ہے ان کی شدت میں بجائے کمی کے اضافہ  ہوتا جا رہا ہے‘ مثلاً یوکرائن کے قضئیے میں امریکہ برابر روس کے خلاف یوکرائن کی ہلہ شیری کر رہا ہے اسی طرح وہ تائیوان کو بھی چین کے خلاف تواتر سے اکسا رہا ہے۔ فلسطینیوں کے اسرائیلیوں کے ہاتھوں قتل عام پر بھی وہ دل ہی دل میں خوش ہے۔ ادھر نریندرا مودی نے مقبوضہ کشمیر میں نہتے کشمیریوں پر جو ظلم روا رکھا ہے اس کی شدت میں بھی رتی بھر کمی نظر نہیں آ رہی ۔یہ وہ بڑے بڑے تنازعے ہیں جو کسی وقت بھی تیسری عالمگیر جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ یہ امر تشویشناک ہے کہ وفاقی دارالحکومت میں فضائی آلودگی خطرناک حد تک پہنج  چکی ہے‘پانی کا معیار بھی بگڑ رہا ہے جس سے صحت عامہ اور آ بی حیات دونوں کو خطرہ ہے۔دیکھنے میں آ رہا ہے کہ اکثر والدین اپنے بچوں کو موبائل سکرین کے بڑھتے ہوئے استعمال  سے  باز نہیں  رکھ رہے اور جس بیہودہ اور مخرب الاخلاق مواد کو موبائل اور نیٹ پر دکھایا جا رہا ہے وہ ان کے ہاتھ میں کلاشنکوف دینے سے زیادہ خطرناک ہے‘ ہر گھر سینما ہاؤس بن چکا ہے‘ پتہ نہیں ہماری آنے والی نسلوں کا اخلاق کس قسم کا ہوگا۔