پاکستان کی کرکٹ ٹیم ٹی ٹونٹی ٹونٹی ورلڈ کرکٹ ٹورنامنٹ میں ناکامی کا سامنا کرنے کے بعد وطن واپس مڑی ہے عین ممکن ہے کہ پاکستان کرکٹ کنٹرول بورڈ نے گزشتہ سال جن کھلاڑیوں کے ساتھ مختلف کیٹگریز میں تین تین سالوں کے لئے جو کنٹریکٹ کئے ہوئے تھے ان میں کئی کو شاید اب کینسل کر دیا جاے اور بعض پر نظر ثانی کر کے ان کی تنزلی کردی جائے‘ جب سے عالمی سطح پر ٹونٹی ٹونٹی کرکٹ ٹورنامنٹس کا آ غاز ہوا ہے کسی بھی پاکستانی کرکٹ ٹیم نے اتنی خراب کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا ہے کہ جتنا اب کی بار ہوا ہے ظاہر ہے ٹونٹی ٹونٹی کرکٹ ٹیم کی نشاط ثانیہ کے واسطے پاکستان کرکٹ کنٹرول بورڈ کے کرتا دھرتاؤں کو اب بعض مشکل اور سخت فیصلے کرنے پڑیں گے۔ عیدالاضحی سے چند روز قبل ساہیوال کے ایک ہسپتال میں چند ڈاکٹروں کی مبینہ غفلت سے بعض اموات ہوئیں پر اس پر عجلت میں قدم اٹھانے اور ان ڈاکٹروں کو گرفتار کرنے کے بجائے متعلقہ حکام اگر پہلے انکوائری کرا کر اس غفلت کے مرتکب افراد کے خلاف انضباطی کارروائی کرتے تو بہتر تھا پھر جب محکمہ صحت کے اہلکاروں نے ڈاکٹروں کی گرفتاری کے خلاف احتجاجاً ہڑتال کی تو حکومت کو گرفتار ڈاکٹروں کو رہا کرنا پڑا اس طرح سے
اس نے اپنی مزید سبکی کرائی‘ ملک کے بڑے شہروں میں تیزی سے بڑھتے ہوے سٹریٹ کرائمز کے بارے میں ارباب اقتدار کو یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ جب بھی کسی معاشرے میں غریبوں اور امیروں کے درمیان فرق بہت زیادہ ہو جائے تو پھر بھوک اور ننگ سے تنگ آئے ہوئے لوگ مالداروں کے گریبانوں پر ہاتھ ڈالنا شروع کر دیتے ہیں وطن عزیز بھی آج کل کچھ اسی قسم کی صورت حال سے دو چار ہے بھوک کی۔پیاس مٹانے کے لئے ضرورت مند امیروں کے گریبانوں پر ہاتھ ڈال رہے ہیں ہمارے سوشل سائنس کے ماہرین کو اس مسئلے کا حل نکالنا ہوگا ارباب اقتدار کو ان کے ساتھ گفت و شنید کر کے اس مسئلے کا حل تلاش کرنا ہوگا یاد رہے کہ انقلاب فرانس کی بڑی وجہ بھی یہ تھی کہ ایک طرف بھوک اور افلاس نے معاشرے کی اکثریت کو اپنا نشانہ بنا رکھا تھا اور دوسری طرف مٹھی بھر اشرافیہ اللوں تللوں میں مشغول
تھی۔ ان ابتدائی کلمات کے بعد اگر ذکر ہو جائے زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی پشاور کی ان شخصیات اور ان کی زندگی سے جڑے ہوئے واقعات اور چند تاریخی حقائق کا کہ جن کے اب قصہ پارینہ ہو جانے سے پشاور غریب ہو گیا ہے تو یہ بات بے جا نہ ہوگی پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کس،کا ذکر کریں اور کس کو چھوڑ دیں جو نام اور قصے اس وقت ذہن میں آ رہے ہیں ان کا ہلکا سا تذکرہ کر دیتے ہیں۔اب جن کے دیکھنے کو آنکھیں ترستی ہیں جو لوگ آج 50 سے لے کر 80 کے پیٹے میں ہیں وہ سیٹھی عبدالغفور سے ضرور آ شنا ہوں گے جو ہر روز نماز ظہر کے وقت قصہ خوانی بازار پشاور کے وسط میں واقع معروف لاہوری حلوائی کی دکان کے متصل والی مسجد کے باہر کھڑے ہو کر ہرراہ گیر کو ہاتھ سے پکڑ کر مسجد کے دروازے کی طرف اشارہ کر کے اسے کہتے کہ نمازکاوقت ہو گیا نماز پڑھیں اکثر لوگ نماز پڑھنے کے لئے مسجد کے اندر چلے جاتے پر بعض لوگ ان کو اس طرح۔جل دیتے کہ ان کا دل رکھنے کے واسطے ایک دروازے سے اندر چلے جاتے پر پچھواڑے کے دروازے سے مسجد سے واپس نکل جاتے سیٹھی صاحب کا یہ روزانہ کا معمول تھا کہ وہ پشاور میں واقع ہر سکول اور کالج کا چکر لگاتے اور کلاس رومز میں بے دھڑک داخل ہو جاتے اساتذہ کرام احتراماً اپنا لیکچر چند منٹوں کے واسطے بند کر دیتے۔