ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے

 جن لوگوں کی تاریخ پر گہری نظر ہے وہ کف افسوس مل کر کہتے ہیں کہ ایک عرصہ دراز سے ہر شعبہ زندگی میں اب نابغے پیدا نہیں ہو رہے حالانکہ بظاہر ہر شعبہ میں ترقی ہونے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔ آئیے اس بیانیہ کی آج کے کالم میں ذرا وضاحت کر لیں سب سے پہلے کھیلوں کی دنیا پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں‘ کیا یہ حقیقت نہیں کہ آج سکواش کی دنیا میں ہاشم خان جیسا کھلاڑی دکھائی نہیں دیتا‘کرکٹ میں سر ڈانلڈ بریڈ مین جیسا بلے باز‘ہاکی میں دھیان چند جیسا سینٹر فارورڈ اور فٹبال میں میرا ڈونا جیسا فٹبالر نظر نہیں آ رہا۔سنگیت کے میدان میں استاد بڑے غلام علی خان‘ لتا منگیشکر‘ نورجہان اور محمد رفیع جیسے لوگ ناپیدہیں‘ موسیقاروں میں آج نوشاد علی‘خورشید انور اور رشید عطرے اور فلمی شاعری لکھنے والوں میں شکیل بدایونی‘ تنویر نقوی‘ شیلندرا اور حسرت جے پوری جیسی شخصیات دور دور تک دکھائی نہیں دے رہیں‘فلم ہدایت کاری کے میدان میں کے آصف‘ محبوب خان اور انور کمال پاشا جیسے افراد کا فقدان ہے اور فلم اداکاری میں دوسرا دلیپ کمار پھر پیدا نہیں ہوا‘ اردو لٹریچر کی دنیا میں میر تقی میر اور غالب کے ثانی پیدا نہیں ہوئے‘ ریڈیو براڈکاسٹرز کی فیلڈ میں اب آپ کو بخاری برادران یعنی زیڈ اے بخاری‘پطرس بخاری اور اسلم اظہر جیسے افراد نظر نہیں آ رہے‘ سیاست کی فیلڈ پر اگر آپ ایک تنقیدی نگاہ ڈالیں توقائد اعظم محمد علی جناح‘ ابراہام لنکن‘روزویلٹ چرچل‘نہرو‘ نیلسن منڈیلا‘ماؤ زے تنگ‘چو این لائی‘ ڈیگال اور  مارشل ٹیٹو کے پائے کے عالمی رہنما نظر نہیں آ رہے‘ اب شاید ہی کوئی دوسرا Einsteinجیسا سائنسدان آ ئے۔ قصہ کوتاہ ہر شعبہ زندگی میں نابغوں کا قحط الرجال ہے‘ ان چند ابتدائی کلمات کے بعد آئیے کچھ اس ملک میں ذکر عمر رسیدہ افراد کا بھی ہو جائے کہ جن کی اکثریت کسمپرسی کی زندگی گزار رہی ہے‘اور ان کے تجربات سے کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ‘ کا ایک قول ہے کہ جس کا لب لباب یہ ہے کہ بوڑھے کی رائے مجھے جوان کی ہمت سے زیادہ پسند ہے‘ اہل مغرب نے تو اس فرمان کا فائدہ یوں اٹھایا ہے کہ عمر رسیدہ افراد کو سینئر سٹیزن کا درجہ دے کر ہر شہر‘ ہر قصبے میں ان کی خصوصی کمیٹیاں تشکیل دے دی ہیں کہ جن کے ہر ماہ حسب ضرورت مقامی حکومت کے حکام کے ساتھ ان کے علاقے کو درپیش مختلف مسائل پر مشترکہ اجلاس ہوتے ہیں اور ان کی ہر عام آ دمی کے مفاد میں شروع کئے جانے والے سماجی اور عوامی منصوبوں  کے بارے میں رائے لی جاتی ہے اور اس سے پھر استفادہ کیا جاتا ہے کیونکہ ان کے پاس مختلف شعبہ ہائے زندگی میں کئے ہوئے کاموں کا بے حد تجربہ ہوتا ہے جس سے ارباب بست و کشاد ملکی ترقی کے منصوبوں کی تشکیل اور ملک میں امن عامہ کے حصول کے بارے میں پالیسی سازی میں کافی فائدہ حاصل کرتے رہتے ہیں‘ اس ضمن میں کچھ عرصہ پہلے وطن عزیز میں بھی ایک نیم دلانہ پیش رفت ضرور ہوئی تھی پر بعد میں اس سلسلے میں جس فالو اپ ایکشن کی ضرورت تھی وہ نہ لیا گیا اور بات ادھوری چھوڑ دی گئی۔ روس اور شمالی کوریا کے درمیان تازہ ترین دوستی کے احیا ء پر امریکہ کے پیٹ میں مروڑ اٹھنے لگے ہیں‘ امریکہ کے ایک ترجمان کا یہ بیان مضحکہ خیز ہے کہ شمالی کوریا یوکرائن کی جنگ میں روس کو اسلحہ دے گا‘یہ الزام دھرتے ہوئے واشنگٹن یہ بات نظر انداز کر گیا کہ کیا امریکہ یوکرائن کی روس کے خلاف  ہلہ شیری نہیں کر رہا؟۔پنجاب میں عیدالاضحی کے موقع پر ڈیڈ لاکھ ٹن آلائشوں کو ٹھکانے لگانا واقعی ایک قابل تعریف کارنامہ ہے‘ جس کی مثال ماضی قریب میں نہیں ملتی اور جس کے لئے پنجاب کی وزیر اعلی مبارک باد کی مستحق ہیں‘  انہوں نے اگر اس کام میں ذاتی دلچسپی کا مظاہرہ نہ کیا ہوتا تو کام اس خوش اسلوبی سے کبھی بھی نہ ہوتا‘ اسی طرح انہوں نے ذاتی طور پر مختلف رفاعی کاموں کی مانیٹرنگ کا جو سلسلہ شروع کر رکھا ہے وہ قابل تعریف ہے‘اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر انہوں نے اسی دلجمعی سے اپنے فرائض منصبی نبھائے تو اگلے عام انتخابات کے بعد وہ ملک کی وزارت عظمیٰ کے واسطے ایک مضبوط امیدوار کے طور پر ابھر سکتی ہیں۔