مسائل کا حل بالکل بھی ناممکنات میں سے نہیں‘ بشرط یہ کہ تعلیم ترجیحات میں شامل ہو جامعات نے مئی کی تنخواہیں تو دیرآید درست آید کے مصداق تھوڑی تاخیر سے ادا کر دیں البتہ جون کے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا‘یہ الگ بات ہے کہ ملازمین کا مطالبہ وہی پرانا ایڈوانس تنخواہ کا تھا‘ تعلیمی ابتری میں جو لوگ زیادہ متاثر ہو رہے ہیں وہ ریٹائرڈ ملازمین ہیں‘جن کے جامعات کے ذمے ریٹائرمنٹ پر کروڑوں روپے یکمشت ادائیگی کے ساتھ گزشتہ بجٹ کے17.50 فیصد اضافے کے9مہینوں کے بقایا جات تاحال واجب الادا ہیں‘ ہرچند کہ یہ مسئلہ کل ان لوگوں کا بھی ہوگا جو اس وقت حاضر سروس ہیں ان سطور میں پنشن کے گھمبیر مسئلے کے حل کا نہایت نتیجہ خیز طریقہ کار بھی کئی بار تجویز کیا گیا مگر ردعمل یا کچھ کر دکھانے کی بجائے مدعی سست گواہ چست والی بات سامنے آگئی‘ اب یہ تو مشکل ہے اور نہ ہی ناممکن کہ ہر کلاس فور محض دو سو روپے کلاس تھری تین سو اور ٹیچر پانچ سو روپے پنشن انڈومنٹ فنڈ کیلئے مختص کر دے‘ مسئلہ محض مالی وسائل کے فقدان یا کم از کم کمی کا نہیں بلکہ بے حسی بھی آڑے آرہی ہے‘جامعات کے متاثرین میں ایک اور طبقہ یا حلقہ بھی شامل ہے مگر نظروں سے اوجھل ہے‘ ایسے بے شمار طلباء و طالبات کو میں نے خود دیکھا پرکھا اور سنا ہے جو سمسٹر فیس کی ادائیگی کی استطاعت نہ رکھنے کے سبب امتحان میں بیٹھنے سے محروم رہ جاتے ہیں یہ اس کے باوجود کہ دوسروں کو چھوڑ کر صرف پشاور یونیورسٹی کے نادار طلباء کیلئے چائنا سفارتخانے اور پشاور یونیورسٹی ٹیچرز ایسوسی ایشن(پیوٹا) کے سکالر شپ کے پیسے بینکوں میں پڑے ہوئے ہیں‘ انتظامیہ فیکلٹی اور کمیٹیاں تینوں موجود ہیں مگر نادار طلباء کی آواز سننے والا کوئی نہیں‘ ایسے میں جامعات اساتذہ کی مرکزی تنظیم یا فیڈریشن نے حکومت وقت سے ملک بھر کی جامعات کیلئے5کھرب بجٹ مختص کرنے کا مطالبہ کیا‘ جبکہ خیبرپختونخوا جامعات کے اساتذہ صوبے کی32 یونیورسٹیوں کیلئے50ارب حکومتی بجٹ جبکہ باقی ماندہ 50فی صد کا بوجھ خود برداشت کرنے کی بات پر بار بار زور دے رہے ہیں‘اب یہ بات تو خیر خارج از بحث ہے کہ یہ مطالبات پورے نہیں ہونگے کیونکہ حکومت کے پاس جو پیسہ باہر سے سود کیساتھ ساتھ جن کی کڑی شرائط کیساتھ آتاہے اس کی سب سے زیادہ ضرورت خود حکومت کو ہے کیونکہ ملک کو چھوڑ کر صرف پارلیمنٹ اور کیبنٹ کو چلانے پر سالانہ جتنا خرچہ آتا ہے اسے سن کر بندے کے اوسان خطا ہو جاتے ہیں یہ الگ بات ہے کہ معہ سود واپسی کیلئے اس کا انتظام کیا اور کیسے کیا جاتا ہے؟ یہی وہ انتظام ہے جس کے سبب تعلیم کیساتھ ساتھ سوشل سیکٹر کا ہر شعبہ پسماندگی اور تنزلی کا شکار نظرآتا ہے‘مایوسی محرومی اور مسائل کے دلدل کی اس کیفیت میں ایک بات یہ بھی سامنے آئی ہے کہ جامعات ملازمین بالخصوص اساتذہ کے احتجاج پر وزیراعظم نے تعلیمی ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد اعلیٰ تعلیمی بجٹ میں کی گئی کٹوتی کو واپس لیتے ہوئے اسے بحال کرنے کی ہدایت کی ہے‘مطلب وہ مراسلہ جو اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے توسط سے یکے بعد دیگرے تین مرتبہ صوبے کی جامعات کوتھمایا گیا تھا کہ اٹھارویں آئینی ترمیم کی رو سے اب آپ جانے اور آپ کی صوبائی حکومت‘یعنی وفاقی حکومت سے گرانٹ کی توقع مت رکھیں‘ آیا بجٹ کی بحالی کے بعد ایک بار پھر ملک بھر کیلئے محض65یا67 ارب مختص ہونے پر تعلیمی کمیشن کا مذکورہ مراسلہ ڈی نوٹیفائی ہوگا یا نہیں؟ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ تعلیمی ابتری سے چھٹکارہ پانے اور مسائل کے حل میں ملازمین کی خود اپنی دلچسپی اور ذمہ داری کا احساس کسی حد تک ہے تو میرے نزدیک تو یہ چیزیں دور دور تک بھی نظر نہیں آرہی ہیں۔
اشتہار
مقبول خبریں
عظمت رفتہ کی بحالی کا عزم
پریشان داﺅدزے
پریشان داﺅدزے
مژدہ برائے سبکدوشان
پریشان داﺅدزے
پریشان داﺅدزے
تجدید عزم یا عزم نو؟
پریشان داﺅدزے
پریشان داﺅدزے
بے اعتنائی کی کوئی حد نہیں ہوتی؟
پریشان داﺅدزے
پریشان داﺅدزے