عمر گم گشتہ کی کتاب 

پشاور سے جڑی ہوئی گم گشتہ یادیں جب آتی ہیں تو ہم جیسے عمر رسیدہ افراد کو اداس کر جاتی ہیں‘فورٹ روڈ پشاور چھاﺅنی میں کرکٹ کا ایک نہایت خوبصورت کرکٹ گراﺅنڈ ہوا کرتا تھا جس میں ایک برطانوی طرز کا چھوٹا سا پویلین بھی تھا‘ اسے دیکھ کر یہ گمان ہوتا کہ جیسے یہ انگلستان کے کسی شہر کا کرکٹ گراﺅنڈ اور پویلین ہو ‘ اس گراﺅنڈ میں درجنوں کے حساب سے کرکٹ میچ کھیلے گئے تھے‘ ایم سی سی بھارت اور نیوزی لینڈ کے خلاف پاکستان کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان کھیلے جانے والے کرکٹ ٹیسٹ میچ تو ہمیں بھی یاد ہیں ‘ ان کو تو ہم نے بھی اس گراﺅنڈ میں کھیلتے دیکھا تھا‘ ان دنوں ابھی ٹیلی ویژن کا ظہور نہیں ہوا تھا اور ریڈیو پاکستان سے عمر قریشی اور جمشید مارکر کی جوڑی رننگ کمنٹری کیا کرتی تھی ‘ہماری جنریشن کے لوگ جو 1950 ءاور 1960 ءکے عشرے میں سکولوں کے طالب علم تھے ان کی کمنٹری بڑے شوق سے سنتے تھے اور خدا لگتی یہ ہے کہ ہم نے انگریزی زبان کا تلفظ انہیں سن سن کر ہی سیکھا تھا ‘عمر قریشی اور جمشید مارکر نے ٹیلی ویژن کے ظہور میں آنے کے بعد ٹی وی پر سے بھی کچھ عرصے کمنٹری کی ‘ جمشید مارکر نے بعد میں فارن سروس جوائن کر لی اور وہ ایک کامیاب سفیر کی حیثیت میں ریٹائر ہوئے‘ انہوں نے بطور سفیر اپنی یاداشتوں پر مشتمل ایک کتاب بھی لکھی تھی‘ عمر قریشی آخری دم تک کرکٹ جرنلزم کے ساتھ منسلک رہے اور مختلف انگریزی زبان کے اخبارات کے لئے کالم لکھتے رہے ‘ان دونوں کا طرز تحریر بڑا دلکش تھا ‘اگر فورٹ روڈ پر واقع اس تاریخی کرکٹ گراﺅنڈ کا حلیہ نہ بگاڑا جاتا تو اچھی بات تھی‘ پر مقام افسوس ہے کہ ہم میں بحثیت قوم اپنے تاریخی ورثوں کا ان کی اصلی حالت میں رکھنے کا شعور ابھی تک نہیں پیدا ہو سکا ہے۔ پشاور شہر کے وسط میں ہم نے چوک یادگار کے پرانے سٹرکچر کا کیا حشر نشر کیا ؟ فردوس سینما کے قریب واقع پرانے جی ٹی ایس کے بسوں کے اڈے کے ساتھ ہم نے کیا سلوک کیا؟ شاہی باغ پشاور میں جا بجا عمارات تعمیر کرنے کی اجازت دے کر ہم نے اس تاریخی سبزہ زار کو کس بے دردی سے برباد کیا ۔ پشاور ریڈیو سٹیشن کا شمار برصغیر کے معدودے چند ابتدائی ریڈیو سٹیشنوں میں ہوتا ہے ‘پشاور سیکرٹریٹ کی پرانی بلڈنگ کے جس کمرے میں 1935ءمیں اسے قائم کر کے اس کی نشریات شروع کی گئی تھیں اس کی جگہ نئی عمارت بنانے کے وقت ہم تو اس کمرے کو گرانے سے نہ روک سکے کن کن گم گشتہ یادوں کو رو رو کر ہم یاد کریں۔ برصغیر کی فلمی تاریخ میں دلیپ کمار جیسا اداکار 1913ءکے بعد آج تک پھر نہ پیدا ہو سکا‘ ان کا آبائی گھر اگر اب تک وقت کے ہاتھوں منہدم نہیں ہوا تو کوئی دن جاتا ہے کہ وہ گر جائے گا ‘پر مجال ہے کہ اسے محفوظ کرنے کے لئے حکومت ٹس سے مس ہوتی ہو۔پرانی یادوں کے اس چھوٹے سے تذکرے کے بعد چند تازہ ترین واقعات کا ذکر بے جا نہ ہو گا۔اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم کا یہ مطالبہ بالکل سو فیصد درست ہے کہ افغانستان میں القاعدہ ٹی ٹی پی اور دیگر کئی دہشت گرد گروپس سر گرم عمل ہیں جن کے خلاف کابل کو سخت قسم کی کاروائیوں کی ضرورت ہے‘ انہوں نے بجا کہا ہے کہ بار بار مطالبات کے باﺅجود افغان حکومت نے پاکستان میں چینی انجینئروں کی ہلاکت میں ملوث گروہوں کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا ‘کام کرو تواس طرح جانفشانی سے کرو کہ جس طرح چینی کرتے ہیں اور دوست ہو تو چین جیسا ہو یہ ہر محب وطن پاکستانی کے لئے خوشی کی بات ہے کہ چین کے تعاون سے اگلے روز گوادر لائٹ ا پ Gwadar light up project منصوبے سے جگمگا گیا،اب وہاں ہسپتال سکول اور سٹریٹ لائٹس شمسی توانائی سے چلا کریں گی ‘یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے اس سے بلوچستان میں ترقی کا عمل شروع ہو گیا ہے۔