تاریخ کے جھروکوں سے 

امریکی ریاست ہوائیHawai کا ایک سرا جاپان کے نزدیک واقع ہے اس کا مرکزی شہرہنولولو Honolulu ہے جو جاپان کے ساحل سے صرف تین سو میل کے فاصلے پر واقع ہے ‘ سات دسمبر 1941 ءکے دن صبح کے وقت جاپان کی ائر فورس کے طیاروں نے ہنولولو کی بندرگاہ جس کا نام ہے پیرل ہاربر pearl harbour پر ایک سرپرائز حملہ کیا جس کے نتیجے میں امریکی بحریہ کے 27 بحری جنگی جہاز تباہ ہو گئے اور امریکن بحریہ کے 25000 جوان ہلاک ہوئے۔ اس حملے کے بعد امریکہ بھی براہ راست دوسری جنگ عظیم میں کود پڑا ‘جو جاپان کے لئے مہنگا پڑا کیونکہ امریکہ نے جب 1945 ءمیں جاپان کے دو شہروں ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم گرائے تو اس سے جاپان کو ناقابل تلافی جانی اور مالی نقصانات اٹھانا پڑے اور اس کے منفی اثرات آج بھی جاپان برداشت کررہا ہے امریکہ کا اس جنگ میں شامل ہونا ہٹلر اور اس کے ہم نوا ممالک کے لئے تباہی کا باعث بنا۔ اکثر سیاسی مبصرین کا تو یہ خیال ہے کہ امریکہ کو اس جنگ کا حصہ بنانے میں برطانیہ کے اس وقت کے وزیراعظم ونسٹن چرچل کی سیاسی حکمت عملی کا بڑا خفیہ ہاتھ تھا کیونکہ اس کو اس بات کا اندازہ ہو چلا تھا کہ امریکہ کے اس جنگ میں شامل ہو جانے سے اس کا پانسہ اتحادیوں قوتوں کے حق میں پلٹ سکتا ہے۔ وقت نے چرچل کے اندازے کو درست ثابت کیا۔ہٹلر کی چالبازی کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیں کہ اس نے دوسری جنگ عظیم کے دوران کابل میں تعینات اپنے سفارتی عملے کے ذریعے وزیرستان میں فقیر آف ایپی سے بھی رابطے کی کوشش کی جو اس وقت فرنگیوں کے خلاف لڑ رہے تھے اور پورا وزیرستان آگ کے شعلے میں ڈوبا ہوا تھا ‘ہٹلر نے فقیر آف ایپی کو اس شرط پر بھاری رقم دینے کی بھی پیش کش کی کہ برصغیر کے بعض علاقوں بشمول
 وزیرستان میں فرنگیوں کے خلاف اپنی جارحانہ سرگرمیوں میں اضافہ کر دیں۔ پر یہ بیل منڈھیر نہ چڑھ سکی ۔دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر کا خاتمہ کرنے کے بعد امریکہ نے سوویت یونین کا تیا پانچا کرنے کی کوشش کی جو انجام کار سوویت یونین کے ٹوٹ جانے پر منتج ہوئی ۔اس جملہ معترضہ کے بعد چند اہم قومی اور عالمی معاملات پر ایک ہلکا سا تبصرہ بےجا نہ ہوگا۔ وزارت داخلہ نے آ زاد کشمیر میں امن عامہ کو برقرار رکھنے کے لئے فرانٹیئر کور کی تعیناتی کا جو حکم دیا ہے‘ اس کے بارے میں یہ عرض ہے کہ اس طریقہ کار سے اب احتراز اس لئے ضروری ہے کہ اس سے سابقہ فاٹا کے علاقے میں امن عامہ پر منفی اثر پڑتا ہے ‘فرانٹیئر کور جسے عرف عام میں ملیشیا کہا جاتا ہے ‘کے مینڈیٹ میں یہ شامل نہیں ہے کہ وہ ریونیو ڈسٹرکٹس میں ڈیوٹی ادا کرے گی‘ اس کے فرائض منصبی میں صرف قبائلی بندوبستی علاقے میں ڈیوٹی دینا ہے‘ اسی طرح فرانٹیئر کانسٹیبلری اس لئے بنائی گئی ہے کہ وہ خیبر پختونخوا کے ساتھ ملحقہ قبائلی علاقے کے بارڈر کی رکھوالی کرے گی‘ اسے بھی صوبائی حکومتوں میں پولیس کی معاونت کے واسطے استعمال کیا جا رہا ہے ۔حیرت کی بات یہ ہے کہ اگر ملک کے دوسرے صوبے یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی پولیس کی تعداد کم ہے تو وہ اس مین اضافہ کیوں نہیں کرتے ‘اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی پولیس ڈلیور نہیں کر سکتی تو وہ اس کی استعداد بڑھانے کی طرف توجہ کیوں نہیں دیتے‘مقام افسوس ہے کہ ہمارے بلدیاتی ادارے اپنے بنیادی فرائض منصبی ادا نہیں کر رہے ‘آپ ذرا گزشتہ سال کے اخبارات اٹھا کر دیکھ لیجئے گا ملک کے ہر شہر میں سگ گزیدگی کے کیسز میں اضافہ ہو رہا ہے ‘بلدیاتی اداروں کے ارباب اختیار سے کیا یہ پوچھنا نہیں چاہیے کہ وہ آوارہ کتوں کو ٹھکانے کیوں نہیں لگاتے ؟ باﺅلے کتوں کے کاٹے ہوئے افراد کو جب ہسپتال لایا جاتا ہے تو وہاں وہ ویکسین دستیاب نہیں ہوتی کہ جس کو فوری طور سے سگ گزیدگی کے شکار فرد کو لگانا ضروری ہوتی ہے‘ ورنہ وہ پاگل ہو سکتا ہے ۔