اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے توسط سے گزشتہ سال سے یکے بعد دیگرے اس مراسلے کے بعد کہ وہ جامعات جن کا ایکٹ صوبائی اسمبلی نے پاس کیا ہے اور وہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کی رو سے اب صوبے کے پاس ہیں وفاق سے کسی قسم کی مالی سرپرستی یعنی فنڈنگ یا گرانٹ وغیرہ کی توقع نہ رکھیں‘ وفاقی وزیر خزانہ کا یہ اعلان قدرے زیادہ کڑوا لگ رہا ہے کہ نئے مالی سال یعنی یکم جولائی 2024ء کے بعد صوبوں کی یونیورسٹیوں کی گرانٹ مکمل طور پر ختم کی جائے گی‘ اب یہ دو ٹوک بات اگر ایک جانب جامعات یعنی یونیورسٹی ملازمین کیلئے ہے تو ساتھ ہی صوبائی حکومت کیلئے بھی سرخ جھنڈی کی مانند ہے‘ جہاں تک صوبوں یعنی تعلیم کے حوالے سے آئینی ذمہ داریاں نبھانے کا تعلق ہے تو خیر سے دوسرے صوبوں بالخصوص پنجاب اور سندھ میں تو پہلے سے اعلیٰ تعلیمی کمیشن قائم ہیں اور صوبائی بجٹ میں اعلیٰ تعلیم یا جامعات کیلئے اچھا خاصا حصہ بھی مختص کیا گیا ہے لیکن خیبر پختونخوا کا تاحال کوئی اتہ پتہ نہیں کہ کہاں کھڑا ہے‘ صوبے اور وفاق کے مابین روبہ عروج لفظی گولہ باری اور کھینچا تانی سے اگر تھوڑا وقت ہاتھ لگ جائے تو ممکن ہے کہ خیبر پختونخوا کی جامعات کے نصیب بھی جاگ جائیں البتہ فی الوقت سوائے خدشات‘ مایوسی اور بے یقینی کی فضاء کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔ اعلیٰ تعلیمی حلقوں کے سنجیدہ عاقبت اندیش لوگوں کے مطابق وفاقی وزیر خزانہ کے دو ٹوک اعلان کے بعد اب وقت آ گیا ہے کہ صوبائی حکومت ایکٹ ترامیم کے پیچھے پڑنے کی بجائے پشاور یونیورسٹی اساتذہ یونین کے اس مطالبے پر دھیان دے کہ صوبائی بجٹ میں صوبے کی 32 یونیورسٹیوں کیلئے 50 ارب روپے بجٹ مختص کیا جائے‘ نیز صوبائی اعلیٰ تعلیمی کمیشن کا قیام عمل میں لاتے ہوئے اپنی آئینی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ جہاں تک موجودہ گھمبیر مالی حالت کا تعلق ہے تو یہ بات اپنی جگہ صوبے کی دو چار پرانی یونیورسٹیوں کو قدرے صوبائی گرانٹ ملنے سے جون کی تنخواہیں تو ادا ہو جائیں گی مگر آئندہ کیا ہو گا؟ اس طرح پنشن کا
گھمبیر مسئلہ بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جو کہ کل ان لوگوں کا مسئلہ بھی ہو گا جو اس وقت حاضر سروس ہیں جبکہ زیادہ اہم بات تو یہ ہے کہ ہر پرانی یونیورسٹی پنشن کی مد میں کروڑوں روپے کی مقروض بھی ہے جبکہ ریٹائرڈ ملازمین آئے روز پشاور یونیورسٹی میں اکٹھا ہو کر احتجاج پر مجبور ہیں‘ ان سطور میں کئی بار تجویز دی گئی کہ پنشن کا مسئلہ گھمبیر سہی لیکن اس کا حل ناممکن ہرگز نہیں البتہ اس کیلئے سب سے پہلے یونیورسٹی کے حاضر سروس ملازمین کو آگے آنا ہو گا‘ المیہ یہ ہے کہ حاضر سروس لوگ ہر مہینے کی پہلی تاریخ کا بڑی بے چینی سے انتظار کرتے ہوئے کسی بھی جتن سے پیچھے نہیں ہٹتے لیکن پنشن فنڈ کیلئے اپنی تنخواہ میں سے تھوڑے تھوڑے پیسے دینے کیلئے تیار نہیں‘ اگر یہ لوگ خود پہل کر لیں تو زیادہ عرصہ نہیں صرف ایک سال کے اندر ایک خطیر پنشن انڈومنٹ فنڈ کا قیام عمل میں لایا جا سکتا ہے۔ اس ابتر حالت میں ایک قابل توجہ پہلو یہ بھی ہے کہ جب حکومت گرانٹ کی فراہمی کیلئے تیار نہ ہو‘ مہنگائی کی برق رفتاری برقرار ہو اور یونیورسٹیاں اپنے اخراجات بالخصوص تنخواہوں کی ادائیگی کیلئے قرضے لینے پر مجبور ہوں تو ایسے میں گاڑیوں‘ ایئر کنڈیشنڈ‘ بجلی‘ گیس اور تیل کے بے دریغ استعمال کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے؟ پشاور یونیورسٹی کیمپس میں رہائش پذیر افسران اور ڈینز صاحبان کیلئے گاڑیوں کا استعمال غیر ضروری اور شاہ خرچی کے زمرے میں نہیں آتا؟ کیا ہفتے میں دو چھٹیاں غیر ضروری نہیں؟ چند لوگ تو آتے ہیں کس وقت اور دوپہر ایک بجے کے بعد دفاتر میں کتنے لوگ بیٹھ کر کام کرتے ہیں؟ اگر اس طریق اور روش کو تبدیل کیا جائے تو اخراجات میں واضح کمی لائی جا سکتی ہے۔ جواب طلب امر یہ بھی ہے کہ ایسے اخراجات کا صاحب اختیار متعلقہ ریاستی اداروں کی طرف سے کڑی نگرانی اور مکمل حساب کتاب ضروری ہے یا نہیں؟ گھوم پھر کر بات وہی پر آ جاتی ہے کہ ان لوگوں کی حالت میں کبھی تبدیلی نہیں آئے گی جب تک وہ اس کیلئے خود سعی نہ کریں‘ یونیورسٹیوں کے انتظام و انصرام اور انکے مستقبل کے بارے میں اس سے بڑھ کر خدشہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ جن گاڑیوں اور رکشوں کی سروس قانونی طور پر ممنوع ہے ان تمام نے یونیورسٹی کیمپس میں ڈیرے جما لئے ہیں مگر پرسان حال کوئی نہیں‘ اس غفلت اور بدانتظامی کی ذمہ داری کس پر عائد ہو گی؟