سیاسی بالغ نظری اور افہام و تفہیم کی ضرورت 

اگلے روز قومی اسمبلی میں بنفس نفیس عمر ایوب اور مولانا فضل الرحمان صاحب سے ان کی نشستوں کی طرف جاکر ان سے وزیر اعظم نے جو مصافحہ کیا اور ان سے تعاون کی جو اپیل کی ان کے اس طرز عمل کو ملک کے عام آدمی نے سراہا ہے‘قوم آج اسی قسم کے رویے کی اپنے تمام سیاسی رہنماؤں سے توقع رکھتی ہے‘پارلیمانی جمہوریت میں انتہا پسندی اور انا پرستی نہیں چلتی بلکہ کچھ لو اور کچھ دو کا اصول چلتا ہے‘ہمارے سیاسی رہنماوں کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اگر پاکستان ہو گا تو وہ سب ہوں گے اور خاکم بہ دہن اگر ملک ہی نہ رہا تو ان کا مستقبل بھی تاریک ہو گا‘ ان کے آپس میں عدم تعاون سے خدشہ ہے کہ ملک سے کہیں پھر جمہوریت کی بساط ہی نہ لپیٹ دی جائے۔ ان ابتدائی سطور کے بعد درج زیل معاملات کا ذکر بے جا نہ ہو گا۔ہماری طرح افریقہ کا ملک کینیا بھی معاشی طور پر زبوں حالی کا شکار ہے وہ بھی ہماری طرح آئی ایم ایف کے قرضوں میں جکڑا ہوا ہے‘جس کی وجہ سے وہاں کے عوام سخت معاشی تکلیفات کا شکار ہیں۔ آج کل تنگ آ مد بجنگ آ مد کینیا کے عوام معاشی بدحالی سے مایوس ہوکر سڑکوں پر نکل کر مہنگائی کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ ضروری ہو گیا ہے کہ پاکستان کے ارباب بست و کشاد اب پاکستان کو آئی ایم ایف کے چنگل سے نکالیں۔ خدا کرے کہ ان کا یہ وعدہ پورا ہو کہ اگلے سال  آئی ایم ایف سے پاکستان جان چھڑا لے گا۔ خواجہ آصف صاحب نے اپنے ایک حالیہ بیان میں امریکہ کی پاکستان کے حالیہ الیکشن کے بارے میں وہاں کے ایوان نمائندگان کی مذمتی قرار داد پر امریکہ کے جو لتے لئے ہیں‘وہ ایک عام پاکستانی کے دل کی آواز ہے‘ یہ تو وہی بات ہوئی ناں کہ چھاج بولے سو بولے پر چھلنی کیوں بولے کہ جس میں خود ہیں سو سو چھید۔ امریکہ کے متعلقہ حکام اگر اس قرارداد کو پاس کرنے سے پہلے ذرا اپنے گریبان میں جھانکتے تو بہتر تھا۔ انسانی حقوق غیر جانبداری اور انصاف کی بات کرنے والے امریکی حکام ذرا اپنی تاریخ کے گزشتہ سو سالوں پر ایک طائرانہ نظر بھی ڈالتے تو ان کو پتہ چل جاتا کہ امریکہ نے درجنوں ممالک میں خود مداخلت کر کے وہاں جمہوریت کا گلا گھونٹا ہے۔ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی بے جا حمایت اس کی مداخلت کی تازہ ترین مثال ہے‘ اس نے ویتنام ہر کیا کیا ظلم ڈھائے‘وہ ایک علیحدہ کہانی ہے۔ اس نے اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے واسطے دنیا کے کئی ممالک میں مارشل لاء کی حمایت کی اور پاپولر ووٹوں پر بنی ہوئی حکومتوں کا تختہ الٹایا۔ پشاور کی انتظامیہ کا یہ اقدام صائب اقدام ہے جو اس نے ضلع بھر میں محرم الحرام کے دوران اسلحہ کی نمائش اور ہوائی فائرنگ پر پابندی لگا دی ہے‘پر کیا ہی اچھا ہو کہ اس قسم کا قدم ملک بھر میں اٹھا یا جائے‘ ممنوعہ بور کے اسلحہ کی پرائیویٹ ہاتھوں میں موجودگی سے ملک میں ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے‘ اسی طرح ہوائی فائرنگ سے روزانہ کئی بے گناہ لوگ لقمہ اجل بن رہے ہیں اور ملک کے ائر پورٹس کے نزدیک علاقوں سے اگر یہ کی جائے تو اس سے ہوائی جہازوں کے کریش ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔یہ امر تشویشناک ہے کہ خیبرپختونخوا میں 36 لاکھ 30  ہزار بچے سکولوں سے باہر ہیں‘حکومت کا 14 لاکھ رجسٹرڈ افغان مہاجرین کو وطن بھیجنے کا فیصلہ بہت بڑا فیصلہ ہے‘ جس پر عمل درآمد اقوام متحدہ کی مالی امداد کے بغیر پاکستان کے لئے بہت مشکل ہو گا۔ یہ وقت کا تقاضا اور اس سے وطن عزیز کے کئی امن عامہ سے متعلق مسائل حل ہو سکتے ہیں۔

‘جب تک اس پر عمل درآمد نہیں ہوتا حکومت یہ تو کر سکتی ہے کہ وہ افغانستان سے مختلف کاموں کے لئے پاکستان آنے والے افغانیوں کو کسی ایسے میکنزم کے تابع کر دے کہ کوئی افغانی بغیر ویزا پاکستان داخل نہ ہو سکے اور پھر ویزا کی معیاد ختم ہونے پر واپس وطن چلا جائے۔