کرکٹ‘منافع بخش پیشہ؟

آج کے کرکٹ کے کھلاڑی لاکھوں میں نہیں بلکہ کروڑوں میں کھیل رہے ہیں اور یا ایک زمانہ ایسا بھی تھا کہ ہماری ٹیم کے کئی کھلاڑی پیروں ننگے کھیلتے تھے کہ ان کے پاس پی ٹی شوز خریدنے کے پیسے بھی نہیں ہوتے تھے  یہ انقلابات زمانہ نہیں تو پھر کیا ہیں‘ اب تو نہ صرف یہ کہ پاکستان کرکٹ کنٹرول بورڈ ان کو اچھی خاصی موٹی ماہانہ  تنخواہ دیتا ہے مختلف تجارتی کمپنیوں کے میڈیا پر جو اشتہارات چلتے ہیں ان میں بھی وہ  کام کر کے اچھی خاصی اضافی رقم بھی کما لیتے ہیں‘جن بنگلوں میں   وہ رہتے ہیں اور جن لگژری گاڑیوں میں وہ گھومتے ہیں  وہ اس ملک میں صرف اشرافیہ ہی افورڈ کر سکتی ہے‘ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اس ملک میں  کرکٹ نے  ایک منافع بخش پیشے کی شکل اختیار کر لی ہے۔ ان ابتدائی کلمات کے بعد درج ذیل امور کا ذکر بے جا نہ ہوگا ۔ چند ہی دنوں بعد محرم الحرام کی مجالس شروع ہو جائیں گی‘ضلعی انتظامیہ اور پولیس اپنے تئیں تو  امن عامہ کو برقرار رکھنے کی  بھرپور کوشش کرتے ہیں‘پر امسال چونکہ بارڈر کے اس پار سے دراندازی  زوروں پر ہے‘ وطن عزیز کے دشمن اس ملک میں  امن عامہ کے مسائل پیدا کر سکتے ہیں‘ اس لئی ہماری خفیہ ایجنسیوں کو بیدار اور متحرک رہ کر ان کی حرکات پر گہری نظر رکھنا ہو گی‘خودکش حملے ہوں یا رستوں میں بارودی سرنگوں کا بچھانے کا عمل‘ ان کا پلاننگ سٹیج پر ہی کھوج لگا کر  ناکام بنایا جا سکتا  ہے‘ بعد میں ان کو غیر موثر نہیں بنایا جا سکتا  اور اسی لئے اس ضمن میں خفیہ ایجنسیوں کے کام کو اہم قرار دیا گیا ہے۔ دوحا میں جو افغان کانفرنس ہو رہی ہے وہ بلا شبہ وقت کا تقاضا ہے‘پر اس کے ثمرات صحیح معنوں میں اس خطے کے عوام تک اسی صورت میں ہی پہنچ  پائیں گے اگر اس عمل میں چین کو  بھی شامل کیا جائے اور افغانیوں کے  پاکستان  میں دخول اور نقل و حمل  کو کسی میکنزم کے تابع کیا جائے ورنہ اس قسم کی کانفرنس کی حیثیت نشتاً گفتاً  و برخاستاً سے زیادہ نہیں ہو گی ظ نیز اقوام متحدہ  لاکھوں کی تعداد میں پاکستان میں بسنے والے افغانیوں کو وطن واپس بھجوانے میں پاکستان کی مالی امداد بھی کرے‘ دکھ ہوتا ہے یہ دیکھ کر کہ وطن عزیز کے بعض سیاسی رہنما جب بھی پاک افغان تعلقات پر اپنے خیالات کا میڈیا پر اظہار کرتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے وہ پاکستان کی نہیں افغانستان  کی نمائندگی کررہے ہوں‘حالانکہ ان کا کھانا پینا اٹھنا بیٹھنا اس ملک میں ہے اور ان کا معاش بھی وطن عزیز سے جڑا ہوا ہے۔ سر دست جو بائیڈن وہائٹ ہاؤس امریکہ میں رہائش پذیر ہیں اور  ٹرمپ اس میں رہائش اختیار کرنا چاہتے ہیں‘ ایک زمانہ تھا کہ جب وہائٹ ہاؤس  ابراہام لنکن‘جارج واشنگٹن‘جیفرسن اور  روزویلٹ جیسے نابغوں کا مسکن ہوا کرتا تھا‘پھر ایسے ادوار بھی آئے کہ اس میں  کلنٹن‘ ریگن اور ٹرمپ جیسے  متنازعہ افراد بھی قیام پذیر ہونے لگے  کہ جو وہائٹ ہاؤس کی بدنامی کا باعث بنے۔امریکہ کی طرح یورپ میں سیاسی قیادت معیار کے لحاظ سے روبہ زوال ہے‘اب چرچل ڈیگال‘ مارشل ٹیٹو اور لینن جیسے نابغے ناپید ہیں۔نیلسن منڈیلا جیسا فرد اب دکھائی  نہیں دے رہا‘ ماؤزے تنگ چو این لائی اورہن چن من  جیسے رہنما اب  نایاب ہیں یہ تو اب دنیا جانتی ہے کہ چین واحد ملک ہے جو جارحیت کے بغیر پرامن طور پر ابھرا ہے‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ چین میں جو نظام پنپ رہا ہے وہ   بالا دستی‘ عسکریت پسندی یا کسی ایک طاقت پر مبنی فوجی طاقت کے حکم کو مسترد کرتا ہے‘دنیا کی اکثریت چین کے پر امن بقائے باہمی کے اصولوں اور انسانوں کے لئے مشترکہ مستقبل کی کمیونٹی سے اتفاق کر رہی ہے‘ چین تاریخ کا واحد ملک ہے جو فتوحات نو آبادیات پر حملے قبضے کے بغیر پر امن طور پر ابھرا ہے۔۔