سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے وفاقی بجٹ پر اپنے جن تحفظات کا اظہار کیاہے ان سے کئی اذہان میں شک و شبہ پیدا ہو رہا ہے‘ وزیر خزانہ کو خود پریس کانفرنس کر کے ان کا تفصیلی جواب دینا چاہئے۔ ملک میں دوبارہ عام انتخابات کرانے کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے‘ہمارے الیکشن کمیشن کا اس ضمن میں ٹریک ریکارڈ اتنا زیادہ غیر تسلی بخش رہا ہے کہ ہارنے والی پارٹی الیکشن کے رزلٹ میں کوئی نہ کوئی سقم نکال ہی لیتی ہے‘ اس کی کیا گارنٹی ہے کہ اگر الیکشن دوبارہ ہوتے ہیں تو اس کے رزلٹ کو تمام سیاسی پارٹیاں مان لیں گی اور اس میں مین میخ نہیں نکالیں گی۔ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کو کیوں الیکشن میں استعمال نہیں کیا جا رہا‘کیا ہم ان ممالک سے معلومات نہیں حاصل کر سکتے کہ جہاں یہ مشین زیر استعمال ہے اور پھر ان کے تجربات کی روشنی میں اسے اپنے ملک میں استعمال نہیں کر سکتے؟اس معاملے میں آخر لیت و لعل کا مطلب کیا ہے‘ اس پر آج تک ہمارے کسی بھی ٹی وی چینل نے ایک دستاویزی فلم بنا کر ٹیلی کاسٹ کیوں نہیں کی‘ جس میں اس مشین کے بارے میں عوام کو ضروری معلومات بہم پہنچائی جاتیں‘ اگر الیکشن سے پہلے تمام سٹیک ہولڈرز سر جوڑ کر ایک ایسا طریقہ کار وضع نہیں کر لیتے کہ جس میں الیکشن کے دوران کسی بھی قسم کی دھاندلی کا امکان نہ ہو تب تک نئے الیکشن کو کسی بھی قسم کی دھاندلی سے پاک و صاف نہیں رکھا جا سکے گا،جہاں تک پارلیمنٹ میں صرف صادق اور امین افراد کی موجودگی کو یقینی بنانے کا تعلق ہے تو کاش کہ وطن عزیز میں بھی اسی طرز کا پارلیمنٹ کا الیکشن لڑنے والوں کیلئے چھانٹی کا سسٹم نافذہوجائے کہ جو ایران نے وضع کیا ہے تاکہ معاشرے کے ہر لحاظ سے دیانت دار افراد ہی اس کے رکن بن سکیں۔ہماری دانست میں اگر دوبارہ الیکشن بھی موجود میکنزم کے تحت کروائے گئے تو اس کا بجز پیسوں کے زیاں کچھ فائدہ نہ ہوگا جب تک تمام سٹیک ہولڈرز اکھٹے مل بیٹھ کر مشاورت نہ کر لیں کہ جن کی اس وقت ملک کو اشد ضرورت ہے۔
نئے الیکشن سے ملک میں صحیح عوامی راج قائم نہیں ہو سکتا‘ الیکشن ریفارمز میں موروثی سیاست کو ختم کرنے کا ایک ٹھوس میکنزم مرتب کرنا ہوگا اسی طرح متناسب آبادی یعنی proportional representation سسٹم کو اپنانے کی بھی ضرورت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔