ریلوے کو اہمیت دی جائے

اگر پاکستان کا تاجکستان کے ساتھ براستہ افغانستان ریلوے لنک ہوجاتاہے تو اس سے ان تینوں ممالک کی معیشت پھلے پھولے گی اور ان ممالک کے عوام کو کئی لحاظ سے مالی فوائد حاصل ہوں گے بہتر ہوگا اگر سی پیک کے پروگرام کے تحت پاکستان ریلوے کے موجودہ پرانے اور بوسیدہ سسٹم کو بھی جدید خطوط پر استوار کر دیا جائے تاکہ ملک کے غریب عوام کی روڈ ٹرانسپورٹ مافیا سے جان چھوٹے اور عوام کو جدید ترین سہولتوں سے لیس محفوظ اور سستی سواری میسر ہو اور اس کے ساتھ ساتھ مال گاڑی کے نظام کو بھی فعال بنایا جائے تاکہ اشیاء صرف اور اشیاء خوردنی کو ملک کے دور دراز علاقوں میں سستے ٹرانسپورٹ کے کرایوں پر پہنچایا جا سکے جس سے ان کی قیمتیں بھی پھر لا محالہ گر جائیں گی اور یہ امر عام آدمی کے مفاد میں ہوگا یہ اچھا امر ہے کہ روس اور چین دونوں پاک تاجکستان روابط کے بارے میں، ایک پیج پر ہیں۔ ان جملہ ہائے معترضہ کے بعد آج کے چند دیگر اہم امور کا ذکر کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں صدر مملکت آصف علی زرداری نے بالکل درست فرمایا ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کا ساتھ چلنا ضروری ہے اور یہ کہ مشاورت اور اتفاق رائے ناگزیر ہے‘ اگر پاکستان کو مسائل 
کے گرداب سے نکالنا ہے تو تمام سیاسی جماعتوں کو ایک پیج پر آنا ہو گا۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے جو 20 نکاتی ضابطہ اخلاق جاری کیا ہے اس میں کئی باتیں کام کی ہیں اور ان پر عمل درآمد بہت ضروری ہے تمام سیاسی جماعتوں کو اس ضابطہ اخلاق پر سختی سے عمل درآمد کرنے کی ضرورت ہے۔ نظریاتی کونسل کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ کوئی شخص یاگروہ کسی دوسرے پرجبر سے اپنے نظریات مسلط نہیں کرے گا کوئی نجی سرکاری گروہ ادارہ یاشخص عسکریت پسندی کے فروغ کا باعث نہیں بنے گا، انتہا پسندی اور تشددپھیلانے والوں کے خلاف سخت کاروائی کی جائے۔ سوشل میڈیا حد درجہ بے لگام ہوچکا ہے اس کے ہاتھوں کسی کی بھی عزت محفوظ نہیں رہی‘ ہر ایک کی پگڑیاں اچھالی جا رہی ہیں آزادی رائے کا وطن عزیز میں کئی لوگ غلط مطلب لے رہے ہیں تنقید شائستہ انداز سے بھی کی جا سکتی ہے کیا اس کے لئے گھٹیا اور اخلاق باختہ زبان کا استعمال ضروری ہے یاد رہے کم عمر لڑکے لڑکیوں کے کچے اذہان اچھی یا بری چیز یا عادت بہت جلد سیکھ لیتے ہیں لہٰذا متعلقہ حکام کو اب سوشل میڈیا کو نکیل ڈالنا بہت ضروری ہو گیا ہے۔ وزیر اعظم نے وسطی ایشیا کے ممالک کیساتھ پاکستان کے روابط مضبوط کرنے کیلئے ان کے دورے کرنا اور انکے ارباب بست و کشاد کو پاکستان بلانے کا جو سلسلہ شروع کیا ہوا ہے وہ وقت کا تقاضا ہے پر اس ضمن میں وزارت خارجہ کو ایسی حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے کہ روس اور چین دونوں کو اعتماد میں رکھا جائے۔