اس کالم کا آغاز چند شہ پاروں سے کریں گے
”قناعت ایسا سرمایہ ہے جو ختم ہونے میں نہیں آ تا
حکومت لوگوں کیلئے آ زمائشوں کا امتحان ہے
کمزورکا یہی بس چلتا ہے کہ وہ پیٹھ پیچھے برائی کرے“بے چارہ آدمی کتنا بے بس ہے موت اس سے نہاں ہے بیماریاں اس سے پوشیدہ مچھر کے کاٹنے سے چیخ اٹھتا ہے ا چھو لگنے سے مر جاتا ہے اور پسینہ اس میں بدبو پیدا کر دیتا ہے‘فخر سر بلندی کو چھوڑو غرور و تکبر کو مٹا اور قبر کو یاد رکھو‘سب سے بڑی دولتمندی یہ ہے کہ دوسروں کے ہاتھ میں جو ہے اس کی آ س نہ کی جائے‘خدا نے دولتمند کے مال میں فقیروں کا رزق مقرر کیا ہے لہٰذا اگر کوئی فقیر بھوکا رہتا ہے تو اس لئے کہ دولت مند نے دولت کو سمیٹ لیا ہے اور خدائے برتر ان سے اس کا اس کا مواخذہ کرنے والا ہے‘وہ عمر کہ جس کے بعد خدا،عزر قبول نہیں کرتا ساٹھ برس کی عمر ہے‘غریب و مسکین خدا کا فرستادہ ہوتا ہے تو جس نے اس سے اپنا ہاتھ روکا‘اس نے خدا سے ہاتھ روکااور جس نے اسے کچھ دیا اس نے خدا کو دیاغصہ ایک قسم کی دیوانگی ہے کیونکہ غصہ کرنے والا بعد میں پشیمان ضرور ہوتا ہے اور اگر پشیمان نہیں ہوتا تو اس کی دیوانگی پختہ ہے‘گھر میں ایک غصبی پتھر لگانا اس کی ضمانت ہے کہ وہ تباہ و بر باد ہو کر رہے گا‘قناعت سے بڑھ کر کوئی سلطنت اور خوش خلقی سے بڑھ کر کوئی عیش و آ رام نہیں‘لوگ اس چیز کے دشمن ہوتے ہیں جسے نہیں جانتے‘مندرجہ بالا آفاقی حقیقتوں کے ذکر کے بعد اب تازہ ترین عالمی اور قومی معاملات کا ذکر بے جا نہ ہوگا‘ وسطی ایشیا کے ممالک سے ہمارے روابط مضبوط سے مضبوط تر ہوں تو خوشی کی بات ہے اس لئے وزیر اعظم کا اس ضمن میں وسطی ایشیا کے ممالک کے سربراہوں سے قریبی تعلقات کا قیام ایک دانشمندانہ کام ہے۔ ہاں البتہ ہمیں روس اور چین کو ہمیشہ اس معاملے میں اعتماد میں رکھنا بھی ضروری ہے‘ماضی میں ہمارے لئے بہت سے مسائل اس لئے بھی پیدا ہوئے کہ ہم نے اپنے تمام انڈے امریکہ کی باسکٹ میں رکھے اور اس وقت کے سوویت یونین کو صفر میں ضرب دی اب خدا خدا کر کے روس کے ساتھ بعد از کوشش بسیار تعلقات اچھے ہوئے ہیں تو ان کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے حکومت نے اگلے روز روس سے تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کیلئے جو 16 رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے وہ وقت کے تقاضے کے پیش نظر ایک صائب اقدام ہے یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ جب بھی کوئی ان مجرموں کو سر عام الٹا لٹکانے کی بات کرے کہ جن کی سزا پھانسی ہے تو انسانی حقوق کے نام یاد علم بردارہاتھ دھو کر اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں یہ بات طے ہے کہ بعض جرائم کے مرتکب افراد کی اگر public hanging نہ کی جائے اور انہیں نشان عبرت نہ بنایا جائے تو ان پر کنٹرول نہیں کیا جا سکتا۔ اس ضمن میں ہم وطن عزیز سے جڑے ہوئے دو واقعات کا ذکر ضروری سمجھتے ہیں مہاراجہ رنجیت سنگھ کا دور حکومت تھا پشاور کا امن عامہ بہت خراب تھا رنجیت سنگھ نے ایک اطالوی ریٹائرڈ فوجی جس کا نام تھا Avitebali کو بطور گورنر پشاور تعینات کیا وہ پشاور میں ابو طبیلہ کے نام سے مشہور ہو گیا اس کے حکم پر سنگین جرائم میں سزایافتہ مجرموں کو پھانسی دے کر بجلی کے کھمبوں سے لٹکا دیا جاتا کتابوں میں لکھا ہے کہ برسر عام پھانسیوں کا جو سلسلہ اس نے شروع کیا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب تک وہ پشاور کا گورنر رہا پشاور میں جرائم کا خاتمہ ہو گیا اسی طرح ماضی بعید میں بنوں میں نکلسن نامی ایک ڈپٹی کمشنر گزرا تھا وہ جب تک اپنے منصب پر فائز رہا بنوں میں جرائم کی شرح کافی گر گئی تھی کیونکہ اس نے بھی کم وبیش سنگین جرائم میں سزا یافتہ مجرموں کو نشان عبرت بنانے کے واسطے سخت سزائیں دیں اسکا پھر نتیجہ یہ نکلا کہ بنوں جیسا ضلع جس کا کرائمز ریٹ بہت زیادہ تھا امن کا گہوارہ بن گیا کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر تو ہم نے ملک میں جرائم کی شرح کو کم کرنا ہے تو پھر اس مقصد کے حصول کے واسطے مجرموں کو بر سر عام سخت سزائیں دینی ہوں گی۔