نایاب لوگوں کی باتیں 

یہ 2003ء کی بات ہے ہم مشہد ایران میں امام رضا کے مزار سے متصل ایک بہت بڑی لائبریری میں اپنے قیام کے دوران جایا کرتے وہاں کے ایک لائبریرین سے ہماری جان پہچان ہو گئی جو گلگت کا رہنے والا تھا اور جس نے امام خمینی کے ساتھ بارہ سال گزارے تھے اور وہ ان کا نماز کے وقت مصلےٰ بچھایا کرتا تھا ہم نے ایک دن اس سے پوچھا کہ چونکہ تم نے امام خمینی کی قربت میں اتنا لمبا عرصہ گزارا ہے تو ہمیں ان کی ذات سے متعلق کوئی بات بتا دیجیے گا انہوں نے کہا کہ ان کی شخصیت کے بارے میں تقریباً تقریباً تمام باتیں قرطاس ابیض پر آ چکی ہیں جب ہم نے مزید اصرار کیا تو انہوں نے ہمیں دو  باتیں بتائیں جو ہم اس کالم میں آ ج اپنے قارئین سے  شیئر کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک مرتبہ ان کے قریبی ساتھیوں نے ان سے کہا کہ وہ اپنے بڑے بیٹے کو آ یت اللہ کیوں نہیں بنوا دیتے کہ وہ ہر لحاظ سے اس مرتبہ کا مستحق ہے پڑھا لکھا ہے اور متقی‘ پرہیز گزار ہے‘ جی ہاں یہ وہی بیٹا تھا کہ جب کچھ عرصہ پہلے اس کا انتقال ہوا تو اسکے بنک اکانٹ میں پاکستانی کرنسی کے مطابق صرف 48 روپے پڑے تھے۔ امام خمینی نے نفی میں جواب دیا‘ جب ہم نے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے فرمایا میں نے اسے ایک مرتبہ قضا نماز پڑھتے دیکھا تھا‘اس نے جو دوسرا قصہ بتایا وہ کچھ یوں تھا۔ امام خمینی کا ملازم ان  کے محلے کی نکڑ پر واقع ایک قصاب کی دکان سے روزانہ آدھا کلو گوشت لے جایا کرتا تھا‘اس قصاب کو یہ پتہ تو تھا کہ یہ گوشت وہ کس گھر میں لے جاتا ہے پر اس میں کون رہتا ہے اس سے وہ لاعلم تھا‘ ایک دن از راہ تففن اس نے اس ملازم سے کہا‘ یار کسی دن ایک کلو گوشت بھی لے جایا کرو‘ گھر واپسی پر اس نے جب یہ قصہ امام خمینی صاحب کو سنایا تو انہوں نے اس ملازم سے کہا کہ تم قصاب سے کہہ دیتے کہ ہم اتنا ہی کھانا افورڈ کر سکتے ہیں کہ جو ایران میں بسنے والا ایک عام سا گھرانہ افورڈ کرتا ہے‘ ان دو واقعات کا حوالہ دینے کا مقصد یہ تھا کہ حکمران ہو تو ایسا ہو جو اسراف کی جگہ قناعت کا عملی مظاہرہ کرے اور جو اپنے جانشین کی تقرری میں کردار کا اتنا زیادہ خیال رکھے اور موروثیت کو ناپسند کرے‘ ان ابتدائی کلمات کے بعد درج ذیل واقعات کا ذکر بے جانہ ہو گا‘اگلے روز نوشہرہ فیروز میں علاج کیلئے پیسے نہ ہونے پر والد نے 15دن کی بچی کو جو زندہ دفن کیا ہے وہ نہایت ہی لرزہ خیز واقعہ ہے‘اس قسم کے دلخراش واقعات جب کسی معاشرے میں وقوع پذیر  ہونا شروع ہو  جائیں تو وہ اس حقیقت کے غماز ہوتے ہیں کہ معاشی اور اخلاقی طور پر وہ معاشرہ  اندر سے  کافی کھوکھلا ہو چکا ہے‘جب غربت اور امارت میں خلیج گہری ہو جائے تو معاشرہ خلفشار کا شکار ہو جاتا ہے۔یہ امر وطن عزیز کے واسطے قابل فخر ہے کہ پاک فوج مذہب اور فرقے سے آزاد میرٹ پر چلنے والاادارہ ہے‘میجر جنرل کے عہدے پر ترقی پانے والے مسیحی افسر میجر جنرل جولین معظم جیمز ادارے میں میرٹ کی اعلیٰ مثال ہیں۔