غیر ملکی سربراہوں کا دورہ پاکستان

یہ امر خوش آئند ہے کہ امسال کئی غیر ملکی اہم سربراہان مملکت پاکستان کے دورے پر آ رہے ہیں جن میں آذر بائیجان‘ترکی‘سعودی عرب‘قطر اور امارات کے حکمران شامل ہیں۔ وسطی ایشیا کے ان تمام ممالک کے ساتھ ہمیں شیرو شکر ہونا چاہیے کہ جو ماضی میں سوویت یونین کا کبھی حصہ ہوا کرتے تھے‘ ان تمام ممالک کے ساتھ پاکستان دو طرفہ تعلقات کو فروغ دے کر ان سے تجارتی تعلقات کو وسیع کر سکتا ہے۔ چین کے ساتھ دیرینہ دوستی کو مزید بڑھانے   کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا‘ وطن عزیز کے دشمن کوشش کر رہے ہیں کہ چینیوں کے لئے پاکستان میں حالات اتنے خراب کر دئیے جائیں کہ جن سے سی پیک کا منصوبہ طوالت کا شکار ہو جائے‘لہٰذا پاکستان میں موجود ہر چینی کی سکیورٹی ہر پاکستانی کا فرض اولین ہونا چاہیے ۔خدا خدا کر کے روس کے دل میں ہمارے لئے جو میل تھی وہ اب کہیں جا کر صاف ہوئی ہے اور روس کے ساتھ اب تعلقات بہتر ہونے لگے ہیں پر ان کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے‘ عالمی امور میں اگر صرف یہ  دو ملک ہی یعنی چین اور روس ہمارے  شانہ بشانہ کھڑے رہیں تو یقین مانئے گا کوئی بھی ہمارا بال بیکا نہیں کر سکے گا۔ ضروری ہے کہ وزارت خارجہ مندرجہ بالا ممالک میں اپنے بہترین  سینئر  سفارت کار  diplomatsتعنیات کرے‘نیز ان ممالک میں کمرشل اور پریس اتاشی لگانے میں بھی صرف  میرٹ کا خیال رکھا جائے۔امریکہ کی یہ کوشش ہوگی کہ ایسے حالات پیدا کئے جائیں کہ روس اور چین پاکستان کے سر  سے اپنے ہاتھ اٹھا لیں۔واشنگٹن کا یہ طریقہ کار ہے کہ مختلف حربوں سے وہ وطن عزیز کے ایوان اقتدار میں اپنے ہم نوا پیدا کر لیتا ہے جو پھر پاکستان کی خارجہ پالیسیوں پر اثر انداز ہوتے رہتے ہیں۔یہ امر افسوس ناک ہے کہ ہر سیاسی حلقہ افغانستان کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے کی اہمیت کا ذکر تو کرتا ہے پر کوئی بھی اس کا ٹھوس حل نہیں بتا رہا۔ ایک طرف سے ملٹری آپریشن کرنے کی صدا آ رہی ہے تو دوسری جانب سے گفت و شنید کر نے کا مشورہ دیا جا رہا ہے‘کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے ارباب اقتدار تمام مکتبہ ہائے فکر کے سرکردہ رہنماؤں کو گول میز کانفرنس میں اکٹھاکریں اور مختلف آپشنز ان کے سامنے رکھ کر ایک متفقہ فیصلہ کریں اور اس فرض کو جلد سے جلد پورا کریں‘یہ خبر افسوس ناک ہے کہ سعودی عرب سمیت خلیجی ممالک میں کے پاکستانی نرسز کے معیار پر تحفظات ہیں اور پاکستانی ڈاکٹرز کو چین اور وسطی ایشیائی ریاستوں میں پریکٹس کی اجازت نہیں‘اس معاملے میں اگر تحقیقاتی جرنلزم کے طالب علم ریسرچ کر کے یا کوئی ٹیلی ویژن چینل دستاویزی فلم بنا کر معاملے کی تہہ تک جا کر عوام کو اصل صورت حال سے آگاہ کرے تو بہترہو گا۔