خدشہ درست ثابت؟

تنخواہوں اور پنشن میں ہر سال اضافے کے اعلانات جامعات میں بڑھتی ہوئی مالی ابتری جبکہ ادائیگی کے لئے گرانٹ کی فراہمی میں حکومت کی طرف سے سرخ جھنڈی نے اعلیٰ تعلیمی اداروں کو کہیں کا نہیں چھوڑا ساتھ ہی اخراجات میں کفایت شعاری کو مسلسل نظرانداز کرنے کا المیہ بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا باوجود اس کے کہ ہر مد میں 100سے لے کر 500 فیصد اخراجات بڑھ گئے ہیں اب یہ کوئی مشکل حساب نہیں کہ سال2023-24 کے بجٹ میں گریڈ16تک کے ملازمین کی تنخواہوں مں 35 فیصد گریڈ 17 اور اس سے اوپر کیلئے30فیصد اور پنشن میں 17.50اضافہ کیا گیا اسی طرح مالی سال2024-25 کے بجٹ میں مندرجہ بالا ترتیب کے مطابق 25 فیصد 21 فیصد اور15فیصد اضافے کا اعلان کیا گیا یوں یہ اضافہ بالترتیب60 فیصد 50فیصد اور32.50 فیصد بن گیا‘ اب سوال یہ ہے کہ ان اضافہ جات کی ادائیگی کیلئے حکومت کی طرف سے کتنی گرانٹ فراہم کی گئی ہے؟ ملک بھر کی جامعات سال2020ء کورونا وباء جبکہ خیبرپختونخوا کی جامعات وباء کے ساتھ ساتھ گزشتہ ایک عشرے سے جس قدر مالی بحران سے دوچار کی گئی ہیں وہ اظہر من الشمس ہے‘ بجٹ منظور ہوئے‘ ادارہ جاتی فنڈز یا بجٹ کا اجراء بھی ہو رہا ہے مگر اب دیکھنا یہ ہے کہ تعلیم کے ساتھ ریاستی چلن کیا اور کیسا ہے؟ آیا ایک بار پھر یہ موقف دہرایا جائے گا کہ جامعات خودمختار؟ ادارے ہیں اخراجات کیلئے مالی وسائل کا ازخود بندوبست کریں اور ساتھ ہی یہ کہ18ویں آئینی ترمیم کے بعد جامعات کا سنبھالنا اور چلانا وفاق کی ذمہ داری نہیں یا نظرثانی کی جائے گی؟ جہاں تک تنخواہوں میں اضافے کا تعلق ہے تو گریڈ17اور اس سے اوپر کے ملازمین سے تو تنخواہوں پر عجیب و غریب قسم کے ٹیکسز کا نفاذ کرکے حکومت نے سب کچھ تقریباً واپس لے لیا ہے البتہ گریڈ16تک کے ملازمین اس گھاٹے سے محفوظ رہے ہیں ہاں یہ حقیقت اپنی جگہ کہ آمدنی سے مسلسل کٹوتی اورمہنگائی میں برق رفتار اضافے نے گریڈ16 تک کے ملازمین کی کمر پہلے توڑ ڈالی ہے ایسے میں وہ ملازمین یقیناً ناخوش اور پریشان ہونگے جو افسر نہ ہوتے ہوئے گریڈ17تک پہنچ گئے ہیں مطلب سپرنٹنڈنٹ صاحبان جو کہ تنخواہوں سے ٹیکسوں کی شکل میں بھاری بھرکم کٹوتی کا نشانہ بن رہے ہیں صوبے کی یونیورتسٹیوں بالخصوص جامعہ پشاور جو کہ اپنی ساخت کے لحاظ سے صوبے کی تمام یونیورسٹیوں سے بڑی ہیتنخواہوں‘ پنشن اور دوسرے متفرقہ اخراجات میں اضافے کے سبب جس قدر بجٹ خسارے کا سامنا ہے وہ قطعی طور پر کوئی ایسی بات یا معمہ نہیں جو حکومت کی سمجھ سے بالاتر ہو مگر اس کے باوجود پشاور یونیورسٹی کے مالی سال2024-25ء کا بجٹ حکومت نے یہ کہتے ہوئے واپس کر دیا کہ اتنے بڑے خسارے والے بجٹ کی منظوری نہیں دی جا سکتی لہٰذا اسے کم کیا جائے؟ اب خسارے کو کیسے کم کیا جا سکتا ہے؟ شاید کسی کی سمجھ میں ہو‘ اب یہ سوال جواب طلب ہے کہ جب حکومتی گرانٹ نہ ہونے کے برابر ہو‘ جامعات میں کفایت شعاری یا بچت کا کلچر دور کی بات ہو اور ساتھ ہی یونیورسٹی اساتذہ اس بات پر زور دے رہے ہوں کہ فیسوں‘ شعبہ امتحانات کی فیسوں اور واجبات جبکہ ہاسٹل چارجز میں کسی قسم کا اضافہ قابل قبول نہیں تو پھر ایک ایسا طریقہ ایجاد یا دریافت کرنے کی ضرورت ہے جسے اپنا کر یونیورسٹیاں کھڑی رہنے‘چلنے اور تعلیم دینے کے قابل ہو جائیں اگر ایسا نہیں ہو سکتا تو پھر یہ ہو سکتا ہے کہ مہنگائی جہاں پر500فیصد بڑھی ہے‘وہ ایک سو کی سطح تک اور جہاں 100 فیصد ہے وہ10 یا زیادہ سے زیادہ20فیصد کی سطح پر نیچے آجائے بصورت دیگر ایسا کوئی طریقہ‘ایسا کوئی نسخہ اس وقت نظر نہیں آرہا جس کی بدولت تعلیم مزید بربادی سے بچ سکے‘ ہاں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اقتدار میں شریک تمام حلقے اپنی تنخواہوں اور مراعات کا ایک معقول حصہ تعلیم کیلئے عطیہ کردے اور حکومتی اخراجات میں بھی کم از کم نصف تک کمی لاتے ہوئے تعلیم کی ڈولتی ہوئی کشتی کو سہارا دیدیں۔