ہاڑ دم توڑ چکا‘ پری مون سون کی جھڑی ملک کے کئی مقامات پر لگ چکی اگر ہاڑ کی خشک گرمی نے خلقت خدا کو توبہ توبہ کہنے پر مجبور کیا تو اب مون سون کی جھڑیاں ان کے گھروں کو نقصان پہنچانے لگی ہیں‘فراز نے یوں ہی تو نہیں کہا تھا۔
ان بارشوں سے دوستی اچھی نہیں فراز
کچا تیرا مکان ہے کچھ تو خیال کر
اس موسمیاتی تبدیلی کے پیش نظر کیلنڈر بدلنے پڑیں گے‘ اب سردی اور گرمی کے مہینوں والے وہ پرانے والے نام نہیں رہیں گے‘پرانے کیلنڈر میں تو بہار کا موسم فروری کے وسط سے اپریل کے وسط تک عرصے پر محیط ہوتا تھا‘ اس کے بعد گرمی 16 اکتوبر تک رہتی اور اس کے بعد پھر موسم سرما 14 فروری تک‘ اب تو یہ سب کچھ تلپٹ ہو کے رہ گیا ہے‘ ایک دوسری چیز اس موسمیاتی تبدیلی کے کارن پیدا ہوئی ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک پل میں گرمی کی شدت ہوتی ہے اور پھر آناً فاناً دوسرے پل میں سردی کا ساسماں پیدا ہو جاتا ہے‘ جس سے کئی لوگ نزلہ کھانسی کا شکار ہو رہے ہیں‘ فضا میں کسی نہ کسی وائرس کی موجودگی رہتی ہے‘ جس نے ہر آدمی کو ماسک پہننے پر مجبور کر دیا ہے‘ویسے ماسک کا استعمال وطن عزیز کے باسیوں کیلئے ایک blessing in disguise یعنی بھیس میں برکت سے کم نہیں کیونکہ اس کو پہن کر باہر نکلنے سے انسان دیگر کئی بیماریوں‘گرد و غبار اور گلے اور سینے کی بیماریوں اور کئی دوسری وباؤں سے بھی بچ جاتا ہے کہ جن کے وائرس فضا میں پائے جاتے ہیں اور جن سے گلے اور پھیپھڑوں کی کئی بیماریاں پھوٹتی رہتی ہیں موسموں کے بارے میں ان جملہ ہائے معترضہ کے بعد ذکر کر لیتے ہیں اس انقلاب کا‘جی ہاں ہمارااشارہ انقلاب فرانس کی طرف ہے‘ تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ انقلاب کوئی چھوٹا موٹا واقعہ نہ تھا،اس نے دنیاکے غریب عوام کو ایک نئی سوچ اور ولولے سے ہمکنار کیا اور کئی ملکوں کی سیاسی معاشی اور سماجی زندگی کی کایا پلٹ دی۔
امریکی صدر بائیڈن بھی اپنی ضد پر اڑے ہوئے ہیں کہ وہ امریکہ کا آئندہ صدارتی انتخاب لڑیں گے اور ان کے سیاسی حریف ٹرمپ بھی‘صدر بائیڈن کی یادداشت جواب دے رہی ہے اور اس صورت حال میں ان کے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کے فیصلے پر انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں‘ دوسری طرف ٹرمپ کے بارے میں بھی سیاسی مبصرین کی رائے اچھی نہیں ہے‘ ان کے خیال میں ری پبلکن اور ڈیموکریٹک دونوں پارٹیوں کے لئے بہتر یہ ہو گا کہ وہ ان کی جگہ متبادل امیدوار تلاش کریں۔ اس وقت ملک میں نئے انتخابات کا مطالبہ کیا جا رہا ہے‘ضرورت اس امر کی ہے کہ پہلے الیکشن ریفارمز میں اصلاحات کا ایک ٹھوس میکنزم مرتب کرنا ہوگا جس میں موروثی سیاست کو ختم کرنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہوگی‘اسی طرح متناسب آبادی یعنی proportional representation سسٹم کو اپنانے کی بھی ضرورت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔