موثر بارڈر مینجمنٹ کی ضرورت 

نریندرا مودی اور راہول گاندھی کے درمیان جو لفظی جنگ آج کل چھڑی ہوئی ہے اس میں اور امریکی صدر بائیڈن اور ٹرمپ کے درمیان  ایک دوسرے کے خلاف جاری  ہرزہ سرائی میں کافی مشابہت  نظر آ رہی ہے۔ صدر بائیڈن کا تو المیہ یہ بھی ہے کہ   چونکہ عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے ان کی یادداشت بری طرح متاثر ہوتی نظر آ رہی ہے‘وہ اکثر لوگوں کے نام تک بھول جاتے ہیں‘ اگلے روز وہ اپنی ایک تقریر میں  روسی صدر کا نام  بھول گئے‘ان حالات میں شاید ان کی سیاسی پارٹی ان کی جگہ کسی اور لیڈر کو امریکہ  کے صدارتی انتخابات میں بطور  اپنا امیدوار اتارے۔ ادھر سپریم کورٹ کے تازہ ترین فیصلے سے ملکی سیاسی حالات ایک مرتبہ بھر سیاسی غیر یقینی صورتحال  سے دوچار ہو تے دکھائی دے رہے  ہیں۔ اقوام متحدہ کی مانیٹرنگ رپورٹ کا یہ انکشاف چشم کشا ہے 6ہزار دہشت گرد افغانستان میں سرگرم عمل ہیں جسے افغان حکومت کی لاجسٹک کی حمایت حاصل ہے اور وہ نیٹو کے ہتھیار استعمال کر رہے ہیں‘ اس انکشاف کے بعد اور بھلا کیا ثبوت اس الزام کو ثابت کرنے کے واسطے درکار ہیں کہ افغانستان اس معاملے میں دروغ بیانی سے کام لے رہا ہے نہ وہ اس پوزیشن میں ہے کہ از خود  ان دہشت گردوں کو لگام دے سکے کہ جو اس کی سر زمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہے ہیں اور نہ پاکستان کو اس بات کی اجازت دے رہا ہے کہ وہ ان کا قلع قمع  کرنے کے لئے اس کی عسکری حمایت کرے۔ ایک عرصہ دراز سے ہم اس کالم کے توسط سے وزارت داخلہ سے یہ گزارش کر رہے ہیں کہ جب تک وہ افغانستان کے متعلقہ حکام سے گفت و شنید کر کے پاکستان میں افغانیوں کے دخول یعنی آ نے جانے کے واسطے ایک جامع اور فول پروف میکنزم وضع نہیں کرے گی افغانستان سے پاکستان کے اندر دہشت گردوں کے داخلے کو روکنا محال ہوگا اس ضمن میں سب سے پہلے تو کسی بھی افغانی کو بغیر پاسپورٹ اور ویزا کے پاکستان میں داخل نہ ہونے دیا جائے‘  پھر ہماری پولیس کو پتہ ہو کہ جو افغانی پاکستان میں داخل ہوا تھا وہ ویزے کی معیاد ختم ہونے کے بعد واپس اپنے ملک چلا گیا ہے‘ پاکستان میں افغانستان سے آ نے والے افراد کے لئے انٹری پوانٹس entry points  کا اعلان کیا جائے جہاں پر تجربہ کار اور مستعد عملہ تعنیات ہو جو ہر آنے والے کے کاغذات اور ان میں درج کوائف کا بغور مطالعہ کرے جب تک کہ اس قسم کا سخت ہوم لینڈ سکیورٹی کا نظام لاگو نہیں کیا جائے گا جو امریکہ نے نائن الیون کے واقعہ کے بعد امریکہ میں نافذ کیا یا جس طرح  انگلستان جانے والوں کے لئے وہاں کی حکومت نے جو حفاظتی اقدامات کر رکھے ہیں اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ افغانستان اور ایران دونوں کے ساتھ بارڈر منیجمنٹ کے نظام کو موثر بنایا جائے چھوٹی موٹی باتوں پر ان دونوں ممالک کے ساتھ لگنے والی پاکستانی سرحدات پر تنازعات اٹھتے رہتے ہیں جن سے غیر ضروری بد مزگی پیدا ہوتی رہتی  ہے جو نہیں ہونا چاہیے۔پاکستان خصوصاً خیبر پختونخوا میں ہاکی کے فروغ کے لئے لالہ ایوب کی خدمات نا قابل فروش ہیں‘ہاکی کے ساتھ ان کا لگا ؤ مثالی تھا‘پشاور صدر میں ان کے ہوٹل میں ہر روز صوبے کے ہر حصے سے آئے ہوئے ہاکی کی تنظیموں کے منتظمین کا ہجوم موجود رہتا تھا جو اپنے اپنے ہاکی کے مسائل کے حل کے بارے میں ان سے گائیڈ لائن لیاکرتے تھے‘ بہت کم لوگوں کو پتہ ہے کہ لالہ ایوب انٹرنیشنل ہاکی کے گریڈ ون درجے کے امپائر بھی تھے اور پاکستان کی اس ہاکی ٹیم کے انتخاب میں بطور سلیکشن کمیٹی کے ایک رکن ان کا ہاتھ بھی تھا کہ جس نے 1960ء میں روم اولمپکس میں گولڈ میڈل جیت کر دنیا کے ہاکی میدان میں پاکستان کی ہاکی ٹیم کو پہلی پوزیشن دلوائی تھی‘ لالہ ایوب کی ایک سال کے لئے سپین کی ہاکی فیڈریشن نے بطور ہاکی کوچ خدمات بھی مستعار لی تھیں جس کے دوران انہوں نے سپین میں ایک سال قیام کے دوران سپین کی ہاکی ٹیم کی کوچنگ کی تھی‘یہ ایک حقیقت ہے کہ ان سے پہلے اور ان کے بعدخیبرپختونخوا میں ہاکی کے میدان میں ان جیسا منتظم ہاکی کوچ اور ہاکی امپائر پھر نہیں پیدا ہوا‘ اتنا وقت وہ اپنے ہوٹل کے کاروبار کو نہ دیتے تھے کہ جتنا وہ خیبرپختونخوا میں ہاکی کے فروغ کو دیتے۔


امریکہ نے سوویت یونین کو ٹکڑے ٹکڑے تو کر دیا پر اسے یہ خبر نہ تھی کہ چین کی شکل میں دنیا میں ایک ایسی قوت پروان چڑھ رہی ہے جو سوویت یونین سے کئی گنا زیادہ طاقتور ہو گی‘امریکہ کی پریشانی اس وقت مزید بڑھ گئی جب چین اور روس آ پس میں شیروشکر ہو گئے آج صورت حال یہ کہ امریکہ کو روس اور چین کے ایک پیج پر آ جانے کے بعد ایک نہایت ہی طاقتور کمیونسٹ بلاک کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے‘ امریکن سی آ ئی اے کی اب کوشش یہ ہے کہ کسی نہ کسی طرح سے چین اور روس کے درمیان تعلقات میں دراڑ پیدا کی جائے‘ امریکہ کو بقول کسے یک نہ شد دو شد کے مصداق اب صرف ایک حریف یعنی روس کے مقابلے میں دو دشمنوں یعنی روس اور چین کا سامنا ہے۔