ذرا غور سے مطالعہ کیجئے درج ذیل فرامین کا جو قناعت پسندی اور سادہ طرز زندگی کے بارے میں ہیں اور پھر ذرا اپنے اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھئے گا کہ ہم کر کیا رہے ہیں‘حدیث شریف ہے ”بخدا میں تم پر فقر و ناداری کے آ نے سے نہیں ڈرتا لیکن مجھے تمہارے بارے میں یہ خوف ضرور ہے کہ اگر دنیا تم پر زیادہ کشادہ کر دی گئی جیسے کہ تم سے پہلے لوگوں پر کشادہ کی گئی تھی تو پھر تم اسے بہت چاہنے لگو گے جیساکہ انہوں نے بہت چاہااور وہ پھر تم کو برباد کر دے گی جیسا کہ اس نے انہیں برباد کیا“اعتدال میانہ روی اور قناعت پسندی وہ امتیازات ہیں جو ہماری کامیابی کی ضمانت ہیں‘حدیث شریف ہے ”اے خدا مجھے مسکینی کی حالت میں زندہ رکھ اور مسکینی کی حالت میں زندہ اٹھا“آپ نے
اگرنہج البلاغہ میں درج یہ فرمان نہیں پڑھا تو ضرور پڑھئے گا کہ خدا کا ایک فرشتہ ہر روز یہ ندا کرتا ہے کہ موت کے لئے اولاد پیدا کرو‘ برباد ہونے کے لئے جمع کرو‘ اور تباہ ہونے کے لئے عمارتیں کھڑی کرو۔ اب ان فرامین کو پڑھنے کے بعد ذراسوچئے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں کیا ہم ان فرامین پر ایک فیصد بھی عمل پیرا ہیں‘کیا
ہم دنیا کی نمود و نمائش میں اس قدر نہیں کھو گئے ہیں کہ ہم محل نما گھروں میں رہنا پسند کرتے ہیں‘چھوٹی موٹر کار میں سفر کرنا اپنی توہین تصور کرتے ہیں اور اپنے گھروں کی تعمیر میں سنگ مرمر کے بغیر کوئی پتھر استعمال کرنا ہی نہیں چاہتے‘ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا معیار زندگی دوسروں سے زیادہ بہتر ہو‘عر بی زبان کا ایک مقولہ ہے کہ عوام اپنے حکمرانوں کا طرز زندگی اپنانے کے بہت شوقین ہوتے ہیں‘ لہٰذا قناعت اور سادگی کا ملک میں چلن عام کرنے کے واسطے سب سے بڑی ذمہ داری ان ہی پر عائد ہوتی ہے لہٰذا ان کو اور ان کی پروردہ اشرافیہ کو پہلا قدم اٹھانا ہو گا‘تب
ہی قوم بھی ان کے نقش قدم پر چلے گی‘اس سلسلے میں چین کی مثال دی جا سکتی ہے جو کوئی مذہبی ملک نہیں ہے پر اس کی لیڈرشپ نے ملک میں سادگی اور قناعت عام کرنے کے واسطے پہلے خود اپنی بودوباش اور رہن سہن میں سادگی اپنائی اور پھر پوری چینی قوم نے ان کی تقلید کی‘ یہی وجہ ہے کہ آج چین ترقی کی بلندیوں کو چھو رہا ہے ان ابتدائی کلمات کے بعد ہم اپنے قارئین کی توجہ ایک نہایت اہم معاملے کی طرف مبذول کرانا چاہتے ہیں اور وہ ہے بدنام ترین کرپٹ افراد کو قرار واقعی سزا کا نہ ملنا‘ تجربہ یہ بتاتا ہے کہ اس ملک میں کئی ملزمان کو سزا نہیں ملتی اور وہ کیفر کردار تک نہیں پہنچ پاتے‘ اس لئے قانون کی وزارت کو اس ضمن میں مناسب اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔