بھولی بسری یادیں 

سو سال پرانے کیپٹل سینما پشاور صدر جس کو مسمار کر دیاگیا  ہے‘ کا شمار پشاور کے قدیم ترین سینما گھروں میں ہوتا تھا اور فلم بینوں کی کئی پرانی یادیں اس سے جڑی ہوئی تھیں‘یہ سینما ہاؤس انگریزی فلموں کی نمائش کے لئے مشہور تھا کیونکہ پشاور کے اکثر دوسرے سینما گھروں میں اردو فلمیں دکھائی جاتی تھیں اس کے ساتھ ہی کتب فروشی کی معروف دکان لندن بک ایجنسی ں بھی گزشتہ وقتوں کی ایک ایسی دکان تھی کہ جس میں قارئین کو ہر موضوع پر نایاب کتابیں دستیاب ہو جاتی تھیں‘اس کے سامنے سعید بک بنک نامی دکان تو بہت بعد میں بنی‘اب کیپٹل سینما کی طرح لندن بک اور سعید بک بنک بھی قصہ پارینہ ہو  چکے‘ جس پر فلم بین اور کتب بینی کے شائقین کف افسوس ملتے ہیں‘ ارباب روڈ پشاور کینٹ میں واقع مندرجہ بالا ادارے پشاور کے فلمی اور تعلیمی حلقوں میں ایک منفرد مقام رکھتے تھے ان کے صفحہ ہستی سے مٹ جانے پر پرانے پشاوریوں کو افسوس ہوا ہے‘کاش کہ ان کو مسماری سے بچایاجا سکتا کہ یہ پشاور کی ثقافتی اور تعلیمی تاریخ کے اہم جز تھے‘ ارباب روڈ پشاور کی رونقیں انہی کے دم سے قائم تھیں جو اب نہیں رہیں‘ ان کے منظر عام سے مٹ جانے سے پشاور کے ثقافتی اور تعلیمی حلقے یقینا  غریب ہوگئے ہیں وہ پرانے پشاوری جو کسی نہ کسی وجہ سے اپنا شہر چھوڑ کر دیار غیر میں جا بسے ہیں وہ اگر آج اپنے شہر آئیں تو ان کو یہ دیکھ کر یقینا دکھ ہو گا کہ ان کے شہر کا حلیہ بگاڑ دیا گیا ہے‘وہ پرانے چوک یادگار کو اب نہیں پائیں گے‘ جی ہاں اس چوک یادگار کو کہ جس کے چبوترے کے نیچے کھڑے ہوکر اس زمانے کے سیاست دان عشا ء کی نماز کے بعد اپنے جلسے منعقد کیا کرتے تھے تاکہ کسی شہری کے معمولات زندگی میں خلل نہ پڑے اور نہ کوئی ٹریفک جام ہو‘ اور نہ اس چوک یادگار کے گردوپیش دکانداروں کے کاروبار کسی رش کی وجہ سے متاثر ہوں‘ اسی قسم کا عمل پشاور صدر میں چوک فوارہ پر بھی ہوتا تھا‘ چوک یادگار پشاور شہر کے نزدیک ہی چند قدم کے فاصلے  پر پشاور میونسپل کمیٹی کی ایک بڑی لائبریری ہوا کرتی تھی‘ وہ بھی اب قصہ پارینہ بن چکی ہے۔ اشرف روڈ کے قریب معروف فردوس سینما ہوا کرتا تھا جس کو بھی مسمار کرکے پلازہ بنا دیا گیا ہے‘ اب انہیں پشاور کا وہ پرانا ریس کورس گراؤنڈ نظر نہیں آ ئے گا‘ جس پر ایک لمبے عرصے تک ہر ہفتے اور اتوار کے دن گھڑدوڑہوا کرتی تھی‘جس میں گھڑ دوڑ  دیکھنے اور شوقین حضرات شرکت کر کے ریس میں حصہ لینے والے گھوڑوں پر اچھی خاصی رقوم کی شرطیں لگایا کرتے تھے‘ ریس کورس گراؤنڈ پر اب یا رہائش کے لئے گھر بنا دئیے گئے یا پھر ہوٹل۔پشاور ریڈیو سٹیشن بھی اب اس مقام پر موجود نہیں کہ جس جگہ قیام پاکستان کے بعد وہ ایک لمبے عرصے تک کام کرتا رہا‘اس کی پرانی عمارت کسی اور سرکاری محکمہ کے حوالے کر دی گئی ہے‘فورٹ روڈ پشاور پر سروسز کرکٹ گراؤنڈ کو بالکل اسی طرز پر بنایا گیا تھا کہ جس طرز پر کہ انگلستان میں اکثر کرکٹ گراؤنڈہوتے ہیں‘اس میں ایک خوبصورت پویلین بھی تھا جس میں دنیا کے اس وقت کے کئی معروف کرکٹرز نے قدم رنجہ کیا تھا‘ سروسز گراؤنڈ کو وسیع کر کے اسے کرکٹ میچوں کے لئے مخصوص کیا جاتا تو بہتر تھا‘ خدا کرے کہ پشاور شہر کا گھنٹہ گھرہمارے تاریخی ورثے کے مخالفوں کی نظر سے بچا رہے۔