امریکہ کے سابق صدر ٹرمپ نے بالکل درست کہا ہے کہ امریکہ تنزلی کی طرف رواں ہے‘یہ تنزلی نہیں تو اور کیا ہے کہ ماضی میں امریکہ میں ابراہام لنکن‘جیفرسن اور روزویلٹ جیسے نابغے امریکی صدارت کے منصب پر فائزہوتے تھے اور آج کل کلنٹن اور ٹرمپ جیسے افراداس منصب پر براجمان ہو رہے ہیں۔ اس جملہ معترضہ کے بعد آج کے اہم عالمی اور قومی امور پرایک طائرانہ نظر ڈالنا نا مناسب نہ ہوگا‘وزیر اعظم کا یہ انتباہ درست ہے کہ چین سے معاہدوں پر عمل درآمد میں تعطل برداشت نہیں کیا جائے گا‘وطن عزیز کا المیہ بھی یہی ہے کہ کئی اہم نوعیت کے عوامی مفاد کے منصوبوں کے ثمرات عام آ دمی تک اس لئے پہنچ نہیں پاتے کہ ان کی مانیٹرنگ نہیں کی جاتی اور ان پر کام کی سست روی سے وہ وقت مقررہ پر مکمل نہیں ہو پاتا‘جہاں تک ان ترقیاتی منصوبوں کا تعلق ہے کہ جو چین کے مالی تعاون سے اس ملک میں زیر تکمیل ہیں وہ تو بہت ہی اہمیت کے حامل ہیں ان کی بروقت تکمیل اس ملک کی معشیت کو مضبوط بنیاد فراہم کرنے میں ممد و معاون ثابت ہو سکتی ہے۔یہ بات تو طے ہے کہ اس وقت بنگلہ دیش میں جو سیاسی پارٹی برسراقتدار ہے اس کو بھارت کی اسی قسم کی آشیرباد حاصل ہے کہ جو کسی زمانے میں اس سیاسی پارٹی کے قائد شیخ مجیب الرحمن کو حاصل تھی لہٰذا اس خبر کو پڑھ کر واقفان حال کو بالکل بھی حیرت نہیں ہوئی کہ بھارتی افواج بنگلہ دیش میں جاری شورش میں حکومت وقت کی مدد کر رہی ہے جو شیخ مجیب الرحمن کی پروردہ سیاسی پارٹی ہے۔ قومی اسمبلی کے سپیکر ایاز صادق کا یہ اقدام قابل تعریف ہے کہ جس کے تحت انہوں نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیوں کے چئرمینوں کے واسطے نئی سرکاری گاڑیوں کو خریدنے سے انکار کر دیا ہے‘ انہوں نے کہا ہے کہ وہ خود 2015ء ماڈل کی پرانی گاڑی استعمال کر رہے ہیں‘ قومی خزانے کی
حالت پتلی ہے‘لہٰذا وہ اپنی زیر استعمال گاڑیوں کو ہی ضروری مرمت کے بعد استعمال کرتے رہیں۔ آج ہمارے ہر حکمران کو اسی قسم کی سوچ کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ملکی سیاست چوں چوں کا مربہ بن چکی‘ اتنے خلفشار کا عالم ہے کہ کوئی بھی سیاسی مبصر وثوق کے ساتھ بیان نہیں کر سکتا کہ کل کیا ہونے والا ہے۔یہ بات کہ سیاست میں کوئی بھی حرف آ خر نہیں ہوتا‘ بالکل اسی طرح درست ہے کہ جیسے یہ مقولہ کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا‘غیر یقینی کے اس عالم میں اگر کسی کا نقصان ہو رہا ہے تو وہ عام آدمی کا ہے۔انا پرستی نے سیاست دانوں کی سوچ کو اتنا دھندلا دیا ہے کہ انہیں نظر نہیں آ رہا ہے کہ قومی سوچ اور وقتی فائدے میں کتنا بڑا فرق ہے‘اگر وہ اسی طرح ایک دوسرے کی ٹانگ کھنچتے رہے اور آپس میں افہام و تفہیم کے ساتھ ان سیاسی اور آئینی مسائل کا حال نہ نکالا تو خدشہ ہے کہ موجودہ نظام کی بساط ہی کہیں نہ الٹ جائے۔ پاکستان کے سفارت خانوں پر حملہ کرنا اور پاکستان کے جھنڈوں کو آگ لگانا افغانیوں کا عام شیوہ ہے‘اس قسم کی حرکات وہ ایک عرصہ دراز سے کر رہے ہیں اور ہر مرتبہ کابل میں برسر اقتدار طبقے نے ان حرکات کا کبھی بھی سنجیدگی سے نوٹس نہیں لیا‘ اب اگلے روز جرمنی میں اسی قسم کا جو واقعہ ہوا ہے اس پر بھی کابل کے حکام اشک شوئی کے سوا کچھ نہیں کریں گے‘ اگر کابل واقعی اس جرم پر سنجیدہ ہے تو اس کو چاہیے کہ وہ جرمنی سے مطالبہ کرے کہ اس میں ملوث مجرموں کو افغانستان کے حوالے کیا جائے اور پھر ان کو قرار واقعی سزا دے کر کابل کے حکام نشان عبرت بنائیں ورنہ پاکستانیوں کی تسلی بالکل نہیں ہو گی۔ وقت آ گیا ہے کہ پاکستان کے ارباب بست و کشاد بھی اب ذرا اپنا پینترا بدلیں اور ان مہربانیوں پر نظر ثانی کریں جو وہ اب تک افغانیوں کے ساتھ تجارتی میدان میں یا مہمان نوازی کے ضمن میں کر رہے ہیں کیونکہ ہر چیز کی ایک حدہوتی ہے۔