بنوں میں اگلے روز امن عامہ کا ایک دلخراش واقع ہوا جس سے علاقے میں کشیدگی پیدا ہو گئی چونکہ بنوں بذات خود بھی ایک سیمی ٹرائبل semi gt tribal علاقہ ہے جس کے گرد و نواح میں فاٹا واقع ہے اس لئے حکومت کو اس علاقے میں امن کی بحالی کے واسطے انجام کار مقامی زعماءپر مشتمل ایک جرگے کا سہارا لینا پڑا فرنگیوں نے اپنے دور حکومت میں جس اجتماعی قبائلی علاقائی ذمہ داری کا پروگرام فاٹا میں نافذ کیا تھا قیام پاکستان کے بعد وہ ایک لمبے عرصے تک ڈلیور کرتا رہا اور یہ اس نظام کی خوبی تھی کہ اس کے تحت پولیٹیکل انتظامیہ اور فاٹا کے مشران اور ملکان کے اشتراک سے بغیر کسی جبر اور ایک گولی چلائے فاٹا کے 85 علاقے کو ملک کے ہر فرد کیلئے قابل رسائی physically accessible بنا دیا گیا۔ ایوان اقتدار اور حزب اختلاف کی سیاسی پارٹیوں کے رہنما روزانہ اپنے بیانات میں جو ایک دوسرے کے لتے لے رہے ہیں اس سے ملک کے عام آدمی کو اور کوئی فائدہ بھلے ہوتا ہو نہ ہو ایک فائدہ ضرور ہو رہا ہے اور وہ یہ ہے کہ اسے یہ اب پتہ چل رہا ہے کہ ان میں کون کتنے پانی میں ہے۔ آج اس ملک میں عام آ دمی کے سیاسی شعور کی سطح اپنی بلند ترین جگہ پر پہنچ چکی ہے۔ ان چند ابتدائی
کلمات کے بعد درج ذیل واقعات کا تذکرہ بے جا نہ ہوگا ۔ملک بھر میں ہر پاکستانی جرمنی میں پاکستان کے سفارتی مشن کی عمارت اور پاکستانی جھنڈے کی وہاں پر مقیم افغانیوں کے ہاتھوں بے حرمتی پر سخت خفا ہے‘ اگلے روز پشاور میں افغانیوں کے خلاف مظاہرہ ایک فطری عمل تھا‘ حکومت کو اب سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہو گا‘ ابھی تک تو وہ ایسا فول پروف میکنزم بھی مرتب نہیں کر سکی کہ پاکستان میں دخول کے واسطے ہر افغانی کو ایک ویزا سسٹم کے تابع کیا جائے اور پھر اس بات کا اہتمام ہو کہ پولیس کو پتہ چل سکے کہ پاکستان میں ویزے کے ذریعے آ ئے ہوئے افغانی ویزے کی معیاد کے اختتام پر وطن واپس جا چکے۔‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ مستقبل قریب میں موسمیاتی تبدیلی بہت بڑا چیلنج ہو گی اور اگر ہم نے اپنی نسلوں کو محفوظ بنانا ہے تو اس کے واسطے ہمیں قومی ‘ملکی اور انفرادی ہر سطح پر شجرکاری کرنا ہو گی‘ اس ضمن میں پلاسٹک آ لودگی سے نمٹنا بھی ضروری ہے ۔جہاں تک امریکہ کے صدارتی انتخابات کا تعلق ہے لگ یہ رہا ہے کہ اب ٹرمپ کا مقابلہ کملا ہیرس سے ہوگا اور شاید ان پر قاتلانہ حملے کی وجہ سے sympathy vote یعنی ہمدردی کا ووٹ بھی ٹرمپ کو پڑے گا‘ جس سے ان کی کامیابی کے امکانات زیادہ ہو چلے ہیں ۔ قومی ائر لائنز کی نجکاری کا عمل تیزی سے جاری ہے ‘پر اس ضمن میں جس بات کا ازحد خیال رکھنا ضروری ہوگا وہ یہ ہے کہ یہ نہ ہو کہ یہ قومی ورثہ بھی کسی لاڈلے کے ہاتھ او نے ہونے فروخت کر دیا جائے ۔میونسپل اداروں کے فرائض منصبی میں شامل ہے کہ گلیوں ‘بازاروں میں پھرنے والے آ وارہ ‘باﺅلے کتوں کو ٹھکانے لگایا جائے کہ جن سے روزانہ بچے بوڑھے اور راہ چلتی خواتین سگ گزیدگی کا شکار ہو رہی ہیں ‘پر مجال ہے کہ متعلقہ اہلکاروں کی اس طرف توجہ ہو‘ جب بھی میونسپل اداروں کی توجہ ان باتوں کی طرف مبذول کروا ئی جائے تو وہ فنڈز کی عدم دستیابی کا رونا روتے ہیں‘ تجربہ یہ بتاتا ہے کہ جس طرح وفاق زیادہ سے زیادہ مالی اور انتظامی اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتا ہے بالکل اسی طرح صوبائی حکومتوں کی بھی یہ کوشش رہی ہے کہ میونسپل اداروں کو خودمختیاری نہ دی جائے اور وہ ہر بات کے لئے ان کے محتاج رہیں ۔