یہ امر خوش آئند ہے کہ انجام کار وطن عزیز کے مقتدر حلقوں کو اس بات کا احساس ہو چلا ہے کہ اس ملک کے ٹرانسپورٹ کے مسئلے کا واحد حل یہ ہے کہ نہ صرف یہ کہ ریلوے سے ملک کے چپے چپے کو ملا دیا جائے اس کے ساتھ ہی ساتھ شہروں کے اندر بھی ٹرام سسٹم یا انڈر گراؤنڈ ٹرین کا کوئی مربوط نظام قائم کر دیا جائے تاکہ اس ملک کی ایک بڑی آبادی کی روزمرہ ٹریفک کی ضروریات پوری ہو سکیں جو آج کل پرائیویٹ ٹرانسپورٹ کے رحم و کرم پر ہیں۔ ہم پیچھے کیوں رہ گئے؟ یہ سوال غور طلب ہے اور ہمیں یہ جاننے کیلئے کہ آ خر کیا وجہ ہے کہ اغیار زندگی کے ہر میدان میں ہم سے کوسوں میل آ گے ہیں کا جواب تلاش کرنے کیلئے ہمیں ہر قسم کے تعصب سے پاک ہو کر سوچنا ہو گا۔ اگر آپ پرانی تاریخ کی کتب پر نظر ڈالیں تو آپ پڑھیں گے کہ ہمارے روشن خیال بزرگوں کا یہ قول تھا کہ یہ نہ دیکھو کہ وہ کون ہے
بلکہ یہ دیکھو کہ وہ کیا کہتا ہے انہوں نے لوگوں کی فکری اصلاح اسی اصول کے تحت کی جو خیالات ان کو سچ دکھائی دیئے ان کو انہوں نے بخوشی قبول کیا افسوس کہ یہ روایت ختم ہو گئی‘ جذباتیت تنگ نظری نے ان کی پرانی سوچ کی جگہ لے لی۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ فولاد سے تیار شدہ اشیاء مثلاً جہازوں‘ ٹینکوں اور توپوں سے آج دنیالرز رہی ہے وہ قومیں کس قدر طاقتور ہیں جن کو فولاد کے استعمال کا علم حاصل ہے آج مغرب کی تجربہ
گاہوں میں حیوانوں کو چیر پھاڑ کر الٰہی صناعی کا تماشا دیکھا جارہا، خدا کی حیرت انگیز تخلیق و نظام آ فرینش کا مطالعہ ہو رہا ہے ہم نے سائنس سے منہ موڑا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج ہم ہر چیز کے واسطے مغرب کے محتاج ہیں۔ ایکس سروس مین ایسوسی ایشن کے صدر ریٹائرڈ جنرل قیوم نے بڑے پتے کی بات کی ہے کہ امریکہ نے افغانستان سے نکلتے وقت وہاں 8 ارب ڈالر کی مالیت کا جدید ترین اسلحہ چھوڑا تھا جو اب وہاں پر موجود دہشت گردوں کے ہاتھ لگا ہے جسے وہ اب پاکستان کے اندر تخریبی کاروائیوں میں استعمال کر رہے ہیں۔ جنرل قیوم کے اس بیان سے پیشتر کئی امریکی فوجی حکام بھی اسی قسم کا انکشاف کر چکے ہیں۔ افغانستان کے بارے میں اب ارباب
اقتدار کو سخت پالیسی وضع کرنا ہو گی کسی بھی افغانی کا پاکستان میں دخول بغیر ویزہ بند کرنا ہو گا اور ان تمام تجارتی ٹرانزٹ سہولیات کو ختم کرنا ہوں گی جو ہم افغانستان کو اب تک فراہم کرتے رہے ہیں بقول کسے تنگ آمد بجنگ آ مد اب تمام مصلحتوں کو بالائے طاق رکھنا ہو گا کیونکہ آج ملک کی سلامتی داؤ پر لگ چکی ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ سوشل میڈیا نے معاشرے کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ پہنچایا ہے آزادی رائے کے اظہار کی آڑ میں ملک میں اگر اس کے ذریعے ایک طرف فحاشی پھیلائی گئی تو دوسری جانب سیاسی انتشار کی پرورش کی گئی اور آج اسکی مثال ایسی ہو گئی ہے جیساکہ بوتل کے جن کی کہ جن لوگوں نے بوتل سے نکالا اب وہ حیران و ششدر ہیں کہ اسے بوتل میں کیسے بند کیا جائے ان کی سٹی گم ہو گئی ہے ان کو اب سجھائی نہیں دیتا کہ اس مسئلے کا کیسے حل نکالا جائے۔