ایک مستحسن فیصلہ

پی ٹی آئی پر پابندی موخر کرنا حکومت کا ایک مستحسن فیصلہ ہے کیونکہ اس ضمن میں ماضی کے جو تجربات ہیں وہ نہایت تلخ ہیں‘ پابندی لگانے سے پابندی لگانے والوں کو فائدہ کے بجائے نقصان زیادہ ہوا ہے‘ہاں یہ بات بالکل درست ہے کہ کسی کے  خلاف بھی کسی بھی ابلاغ عامہ کے ذریعہ پراپیگنڈہ کرنا اور اسکی پگڑی اچھالنے کا تدارک قانونی طریقے  سے کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ دیکھنے میں آ یا ہے کہ سوشل میڈیا کے راستے اکثر افراد کی کردار کشی ایک منظم طریقہ کار سے کی جا ری ہے۔خیبر پختونخوا کے  وزیرِ اعلیٰ کی  متعلقہ اہلکاروں کو یہ وارننگ بجا ہے  کہ 14 سمال ڈیم رواں سال مکمل کئے جائیں اور اس کام میں غفلت کی کوئی گنجائش نہیں۔کیا کل تک کوئی یہ تصور بھی کر سکتا تھا کہ ڈالرتباہ  بھی ہو سکتا ہے اور امریکہ دیوالیہ‘  بنک آف امریکہ کے مطابق امریکہ کا قومی قرضہ 100دنوں میں ایک ٹریلین ڈالر بڑھا ہے‘ امریکی  میں پاکستان کے اندر دہشت گردی کی لعنت ختم کرنے کے واسطے وطن عزیز کے لئے 10 کروڑ 10لاکھ ڈالر امداد دینے کی جو تجویز زیر غور ہے‘اگر یہ پیسے مل جاتے ہیں اور اس کا جائز اور شفاف طریقے سے درست  استعمال ہو جاتا ہے تو مطلوبہ نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ آج ملک میں گڈ گورننس کے فقدان کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ سول ایڈمنسٹریشن میں اہم کلیدی مناصب پر حقدار سول سرونٹس کی تعنیاتی میں احتیاط نہیں برتی جا رہی‘ مثلا ًایک دور تھا کہ اس فرد کو  ضلع کا ڈپٹی کمشنر نہیں بنایا جاتا تھا کہ جب تک اس نے بطور اسسٹنٹ کمشنر کم از کم تین برس کسی سب ڈویژن میں خوش اسلوبی سے کام نہ کیا ہوتا اور وہ اگر اچھی عمومی شہرت کا مالک نہ ہوتا‘اس کی تعیناتی نہیں ہوتی۔ اسی طرح کسی افسر کو کمشنر کے عہدے پر لگانے کے قابل نہ سمجھا جاتا‘ اگر اس نے کم از کم دو اضلاع میں بطریق احسن ڈپٹی کمشنر کے فرائض نہ ادا کئے ہوتے۔
 اور اس قسم کی باریکیوں کا خیال اس لئے کیا جاتا کہ یہ دو مناصب ایسے ہوتے ہیں کہ جن کا ضلع اور ڈویژن میں عوام سے براہ راست رابطہ رہتا ہے‘اسی طرح سب ڈویژن اور ضلع کی سطح پر ڈی ایس پی اور ایس پی تعینات کرتے وقت بھی افسران کی عمومی شہرت اور تجربے کو مد نظر رکھا جاتا۔گڈ گورننس کا وطن عزیز سے زوال اس دن سے شروع  ہو گیا کہ جب مندرجہ بالا کلیدی مناصب پر تعیناتی میں سیاسی مداخلت کا عمل دخل شروع ہو گیا