مستند فلمی جریدوں کا فقدان 

برصغیر کی فلمی انڈسٹری2013ء میں اپنے سو سال پورے کر چکی ‘یہ زیادہ دور کی بات نہیں جب بھارت اور پاکستان دونو ں سے اردو اور انگریزی زبان میں کئی فلمی میگزین باقاعدگی سے ہر ماہ شائع ہوتے تھے جن کی اچھی خاصی مارکیٹ تھی ‘ جیسا کہ فلم فیئر‘ ایسٹرن فلمز‘ شمع دھلی‘  شمع کراچی اور  نگار سٹارڈسٹ کے نام سے ایک اور جریدہ  بھی بعد میں بمبئی سے  چھپنے لگا فلم فیئر اور نگار تو فلم بینوں میں اتنے پاپولر ہو گئے تھے کہ وہ باقاعدگی سے ہر سال فلم انڈسٹری کے مختلف شعبوں میں بہترین کارکردگی کرنے والے فنکاروں کو ایوارڈ بھی  دینے لگے تھے  اور فلم فیئر اور نگار ایوارڈز کی بھارت اور پاکستان میں اتنی  وقعت ہو گئی تھی کہ انہیں معروف آ سکر ایوارڈ کے ہم پلہ قرار دیا جانے لگا تھا‘ یہ جریدے یا تو ممبئی سے نکلتے کہ جو اس زمانے میں بمبئی کہلاتا تھا اور یا پھر لاہور اور کراچی سے کہ جو پاکستانی فلم انڈسٹری کے سینٹر تھے‘ افسوس کہ اب ان کے معیار کا کوئی بھی فلمی رسالہ مارکیٹ میں دکھائی نہیں دیتا البتہ ماہنامہ  فلم فیئر کے شمارے اب بھی بعض اخبار فروشوں کے پاس نظر آ جاتے ہیں‘ بالی وڈ میں فلم فیئر فلمی ایوارڈ اب بھی دئیے جاتے ہیں اور ان کو حاصل کرنے والوں کا بالی وڈ میں ایک خاص مقام حاصل ہے‘ اس ضمن میں اگر معروف صحافی الیاس رشیدی صاحب کا ذکر نہ کیا جائے تو زیادتی ہوگی‘ وہ ایک لمبے عرصے تک فلم میگزین نگار بھی چھاپتے رہے اور ساتھ ہی ساتھ نگار ایوارڈ کے نام سے ہر سال نگار ایوارڈ کی تقسیم کا بھی اہتمام کرتے تھے جو ملک میں بننے والی بہترین فلموں کے ہدایت کاروں اداکاروں‘ موسیقاروں اور دیگر فلمی کیٹیگری سے تعلق رکھنے والے فنکاروں کو تقسیم کئے جاتے‘ جس سے فلمی صنعت سے وابستہ فنکاروں کی کافی حوصلہ افزائی ہوتی‘ اب نہ الیاس رشیدی صاحب رہے اور نہ وہ نگار ایوارڈ‘ ان کا پھر پاکستان کی فلمی صحافت میں کوئی جانشین پیدا نہ ہو سکا۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ فلم انڈسٹری کا زوال شروع ہوا اور فلموں کا معیار بھی گرتا چلا گیا۔ ان ابتدائی کلمات کے بعد چند اہم مسائل کا ایک تنقیدی جائزہ پیش خدمت ہے۔آپ ذرا کسی بھی سڑک پر صرف دس  منٹ  کھڑے ہو کر اس پر چلتی ہوئی ٹریفک کو اگر باریک بینی  سے دیکھیں تو آپ نوٹ کریں گے کہ دس  موٹر سائیکل پر سوار افراد میں سے صرف ایک یا دو نے ہیلمٹ پہنا ہوگا اور باقی سب بغیر  ہیلمٹ پہنے  موٹر سائیکل  چلا رہے ہوں گے‘ اسی طرح نوے فیصد کاریں اور دیگر گاڑیاں حد رفتار سے کئی گنا زیادہ سپیڈ پر چل رہی ہوں گی اور نوے فیصد گاڑیاں سڑک پر چلنے کے لئے میکینکلی ان فٹ بھی  ہوں گی‘ پر افسوس صد افسوس یہ سب کچھ اگر کسی کو نظر نہیں آ رہا تو وہ ٹریفک  پولیس کو نظر نہیں آ رہا‘ تو ان حالات میں ہماری سڑکوں پر ہر ماہ سینکڑوں افراد ٹریفک حادثات میں اگر  لقمہ اجل  ہوتے ہیں تو اس میں اچھنبے کی کیا بات ہے۔اس سلسلے میں ٹریفک حکام اپنے ذمہ داریاں احسن طریقے پر پوری کریں تو حادثات میں کمی آسکتی ہے اور قیمتی انسانی جانوں کو بھی تحفظ مل سکتا ہے۔