اسرائیل اور بھارت کی بربریت 

 ہنی ٹریپhoney trap شہد کا جال کی اصطلاح میڈیا پر آج کل بڑی استعمال ہو رہی ہے اور یہ سوشل میڈیا سے پیدا ہونے والی کئی قباحتوں میں سے ایک قباحت ہے نہ جانے ارباب اقتدار کب سوشل میڈیا پر دکھائے جانے والے اس تمام غیر سیاسی مواد پر قدغن لگائیں گے کہ جو اس ملک کا کوئی بھی غیرت مند فرد نہ خود دیکھنا پسند کرتا ہے اور نہ یہ چاہتا ہے کہ اس کے بال بچے اسے دیکھیں ‘آ زادی رائے کی آ ڑ میں اخلاق سوز مواد کو سوشل میڈیا کے توسط سے معاشرے میں تیزی سے پھیلایا جا رہا ہے ‘کسی منچلے نے خوب کہا ہے سوشل میڈیا پر موجود اخلاق باختہ مواد اس ملک کی جواں سال نسل کے واسطے دشمن کے اٹیم بم سے زیادہ خطرناک ہے ‘ان ا بتدائی سطور کے بعد حسب معمول تازہ ترین اہم قومی اور عالمی امور کا ہلکا سا جائزہ لینا بے جا نہ ہو گا۔ایک عرصے کے بعد جماعت اسلامی کو حافظ نعیم الرحمان کی شکل میں ایک متحرک قیادت میسر آئی ہے ‘جس نے اس پارٹی کے وجود میں ایک نئی روح پھونک دی ہے‘ خدا کرے کہ حکومت وقت اور اپوزیشن تمام موجودہ مسائل کو افہام و تفہیم کے ذریعے حل کریں اور انا پرستی کے خول سے باہر نکل کر وسیع تر قومی مفاد کو مد نظر رکھیں کیونکہ اس وقت ملک کی بقا ءداﺅ پر لگی ہوئی ہے اور ملک دشمن عناصر نے چاروں طرف سے ملک کو گھیرے میں لے رکھا ہے ۔خدا خدا کر کے ملک میں حبس کا مون سون کی بارشوں سے خاتمہ تو ہوا اور گرمی کے ستائے ہوئے لوگوں نے سکھ کا سانس لیا گرمی کی شدت اور اس پر طرہ یہ کی اکثر علاقوں میں بجلی کی کمیابی نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کر دی تھی‘ اس صورت حال میں اتوار کی صبح سے مون سون کی جھڑی نے ملک کے مختلف علاقوں میں لوگوں کے مرجھائے ہوئے چہروں میں تازگی کی ایک رمق ڈال دی ہے‘ اب عام آدمی کی یہ دعا ہے کہ یہ باران رحمت باران رحمت ہی رہے ‘قوم باران زحمت سے محفوظ رہے‘ اور سیلابی شکل نہ اختیار کر جائے۔ اسرائیل نے غزہ کی پٹی میں جس قسم کا ظلم فلسطینیوں سے روا رکھا ہواہے اس نے دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر کی کی گئی بربریت کو شرما دیا ہے اور اب اس کی دیکھا دیکھی نریندرا مودی نے اسی قسم کا چلن مقبوضہ کشمیر کی وادی میں بھی اپنا رکھا ہے۔ بیس تیس برس پہلے کی بات ہے بھارتی حکام نے اسرائیل سے مشورہ کیا کہ اس نے فلسطینیوں کے جذبہ حریت کو کیسے کچلا تو اسرائیلی فوجی حکام نے انہیں کہا کہ مقبوضہ وادی میں بھارتی فوج یا پولیس پر جس گھر یا چوبارے سے فائر آئے اسے بلڈوزر کے ذریعے صفحہ ہستی سے ہی مٹا دیا جائے اور اس پر بے پناہ گولہ باری بھی کی جائے‘ چنانچہ چشم فلک نے دیکھا کہ بھارتی فوج اور پولیس نے مقبوضہ وادی میں وہی کچھ کیا جو اسرائیل نے تجویز کیا تھا اور جس کا عملی نمونہ اس نے غزہ میں اینٹ سے اینٹ بجا کر پیش کیا ہے ۔امریکی سینیٹ میں پاکستان و چین مخالف جو بل پیش ہوئے ہیں اس کے ردعمل میں امریکہ اور یورپی ممالک میں موثر سفارت کاری کی ضرورت ہے ان بلوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ پاک چین قربت پر کس قدر سیخ پا ہے ۔اب ایک نظر تاریخ پر ڈالتے ہیں‘تاریخ کی کتب کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ افلاطون کے مطابق اس کے عہد تک یونان میں پانچ قسم کی ریاستوں کے تجربے ہو چکے تھے اول اشرافیہ‘ دوئم timocracyسوئم oligarchy‘چہارم جمہوریت‘ پنجم آمریت timocracyکا نظام کرپٹ تھا اور سپارٹا میں رائج تھا اس نظام میں حکومت کا اختیار فقط صاحب املاک افراد کو حاصل تھا جس کے پاس جتنی زیادہ جائیداد ہوتی نظم و نسق میں اتنا ہی زیادہ اس کا اختیار چلتا تھا‘افلاطون اس طرز حکومت کو سخت ناپسند کرتا تھا کیونکہ اس میں صرف دولتمند ہی راج کرتے تھے اور غریبوں کی کوئی آواز نہ تھی‘ دولت اور دولت مندوں کی عزت ہوتی تھی اور پاکبازوںکی بے قدری ‘افلاطون کا خیال تھا کہ اگرحاکموں اور محافظوں کی خاطر خواہ اصلاح ہو جائے تو تاجروں دستکاروں اور کاشتکاروں کی اصلاح خود بخودہو جائے گی لہٰذا حاکموں اور محافظوں کی تعلیم و تربیت بچپن سے ہی ہونی چاہیے ‘ جن بچوں میں آگے بڑھنے کی رمک دکھائی دے ان کو گھر والوں سے الگ کر کے کیمپوں میں رکھا جائے جہاں ان کو لائق استادوں کی نگرانی میں جسمانی توانائی کی خاطر جمناسٹک اور نصاب میں وہی مضامین ہوں وطن کی خدمت کا جوش اور وطن کی خاطر قربانی کا ولولہ پیداہو‘ ذاتی مفاد کے بجائے ملکی مفاد کو فوقیت دینے کا جذبہ پیدا ہو ‘ لہٰذا ان دونوں طبقوں کی کوئی ذاتی ملکیت حتیٰ کہ ذاتی مکان بھی نہیں ہونا چاہیے ان کو ریاست سے گزارے کےلئے بس اتنا معاوضہ ملتا رہے جو ان کی سال بھر کی ضرورتوں کیلئے کافی ہو‘ بیس برس کی عمر میں بچوں کا امتحان لیا جائے تاکہ ان کی جسمانی ذہنی اور اخلاقی صلاحیتوں کا اندازہ ہو سکے جو بچے معیار پر پورا نہ اتریں ان کو تجارت محنت مزدوری دستکاری اور کاشتکاری میں لگا دیا جائے ان لوگوں کو ذاتی ملکیت کی اجازت نہ ہو‘ فضیلت کی بنیاد دولت نہ ہو۔