وہ پشاور کہاں گیا جس میں صبح تڑکے میونسپل کمیٹی (ان دنوں میونسپل کارپوریشن)نہیں ہوا کرتی تھی کہ ماشکی کمر پر پانی کی مشک اٹھائے شہر کے محلوں کی گلیوں کی نالیوں میں پانی بہاتے تھے جب گھنٹہ گھر پشاور کے قریب واقع چوک یادگار کے قرب و جوار میں میونسپل کمیٹی کی ایک پبلک لائبریری ہوا کرتی تھی جب سیاسی جماعتیں عشاء کی نماز کے بعد چوک یادگار پشاور شہر کے پلیٹ فارم کی اونچائی پر سٹیج سجا کر جلسوں کا انعقاد اس لئے کرتی تھیں تاکہ خلقت خدا کے روزمرہ کے معمولات زندگی میں کوئی خلل نہ پڑے اور نہ کوئی ٹریفک جام ہو اور اسی قسم کا عمل پشاور صدر میں واقع چوک فوارہ میں بھی کیا جاتا تھا۔اب آنکھیں تلاش کرتی ہیں چوک یادگار کے قریب واقع روزنامہ انجام کے اس پرانے دفتر کی عمارت کے نچلے حصے میں واقع دکانوں کے تھڑوں کو‘ جہاں پر معروف مزاحیہ شاعر مرزا محمود سرحدی شام کے بعد اپنی محفل سجاتے تھے اور ان کے چاہنے والے ان کے ارد گرد بیٹھ کرقہوہ کے دور پر رات گئے تک گپ شپ لگاتے۔ وہ ان دنوں اس اخبار کے واسطے روزانہ ایک قطعہ بھی لکھتے جو اخبار بینوں میں کافی پاپولر تھا‘وہ پشاور نہ جانے کہاں کھو گیا‘ جس میں وہاں کے باسی بغیر روغنی روٹی ملائی اور پانچوں (پائے)کے شوربے اور گلابی رنگ کی کشمیری چائے اور باقر خانیوں کے بغیر ناشتہ نہ کرتے۔ اس گم گشتہ پشاور شہر میں ہر وقت شاہی باغ کے فٹبال گراؤنڈ پر روزانہ کوئی نہ کوئی فٹبال ٹورنامنٹ ضرور کھیلا جاتا‘ وہ پشاور کہاں چلا گیا؟جس میں سینما گھروں کا ایک بڑا سلسلہ تھا جو سینکڑوں لوگوں کا ذریعہ معاش بھی تھا‘تصویر محل‘ناولٹی اور پکچر ہاؤس نامی سینما گھر تو کابلی گیٹ کے باہر ایک ہی لائن میں واقع تھے فردوس سینما کننگھم پارک کے قریب کہ جسے آج کل جناح پارک کے نام سے پکارا جاتا ہے‘ اس پرامن پشاور کو کہاں ڈھونڈیں جس میں شادیوں کی باراتیں رات گئے جاتیں اور دولہا کو گھوڑی پر بٹھا کر دلہن کے گھر لے جایا جاتا‘ امن کا یہ عالم تھا کہ دلہن کو آدھی رات کے بعد اپنے سسرال کے گھر ڈولی میں لایا جاتا اور اس کے ساتھ زیورات سے لدی ہوئی سہلیاں سکھیاں بھی ہوتی تھیں‘ پر کسی کی کیا مجال کہ ان کو راستے میں کوئی لوٹنے کا سوچ بھی سکتا‘جب کہ آج کل دن دیہاڑے بھی راہگیروں کو سڑکوں پر سورج کی روشنی میں لوٹ لیا جاتا ہے۔ قصہ خوانی پشاور شہر میں افغان قونصل خانے کی ایک وسیع عمارت جو اب بھی موجود ہے‘یہاں سے ہر روز ایک خصوصی بس چلا کرتی جو کابل جانیوالے پاکستانیوں کو افغانستان لے جاتی‘ عموماً ہر برس اگست میں جشن کابل کے موقع پر ہزاروں پاکستانی اس بس سے کابل جاتے اور اس جشن میں شرکت کرتے‘قصہ خوانی پشاور میں ایک عرصے تک صابری ہوٹل کے سیخ کبابوں کا چرچا رہا‘ آج پشاور صدر جاؤ تو آنکھیں ڈھونڈتی۔۔خیبر میل پشاور کے دفتر کو کہ جو اس صوبے کا واحد انگریزی زبان کا روزنامہ تھا‘جس کے ایڈیٹوریل سید عسکر علی شاہ لکھا کرتے جو اخبار بین بڑے شوق سے پڑھتے‘ اس اخبار کے مالک شیخ ذکاء اللہ تھے۔
اس اخبار کا دفتر لینڈزڈاؤن سینماگھر کے سامنے تھا جو بعد میں فلک سثر سینما کہلایا جاتا تھا اس کے نزدیک ہی روزنامہ الفلاح کا دفتر بھی تھا‘ کسے یاد رکھا جائے اور کسے بھلایا جائے‘شاعر نے سچ کہا ہے یاد ماضی عذاب ہے یا رب‘ چھین لے مجھ سے حافظہ میرا۔نہ جانے کس غلط فہمی میں مبتلا ہو کر ترنگ میں بعض شاعروں نے ساون کے مہینے پر قصیدے لکھ دئیے جہاں تک ہم نے دیکھا سنا یا محسوس کیا ہے اس مہینے دن میں دو مرتبہ غسل نہ کرو تو بدبو دار پسینہ کسی محفل میں شامل ہونے کے قابل چھوڑتا ہی نہیں‘ حشرات الارض بھی زمین کے اندر گرمی کی حدت سے گھبرا کر زمیں کے اوپر آ جاتے ہیں اور اسی مہینے بڑے بوڑھے اس بات کا ازحد خیال رکھتے ہیں کہ کہیں بچوں کو سانپ اور بچھو ڈنگ نہ مار دیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔