انگنت مسائل 

فواد چوہدری کی اس بات میں وزن ہے کہ بجلی پلانٹ  ملک میں بجلی کی کمیابی کے مسائل کی اصلی  وجہ ہیں اور یہ کہ نہ تو ان کو فوری طور پر بند کیا جا سکتا ہے اور نہ ان کی ادائیگیاں روکی جا سکتی ہیں‘یہ تمام پلانٹ حکومت پاکستان کی گارنٹی  پر لگے ہوئے  ہیں  اور ان سے عدالتوں کا عمل دخل ختم کر دیا گیا ہے۔ فواد چوہدری  کا یہ کہنا بھی غورطلب ہے کہ یہ زیادہ تر سنگا پور میں چیلنج ہونے ہیں‘ ان کے مستقبل کے بارے میں کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے دو مرتبہ سوچنا ہوگا کہ چین سے کہیں ہمارے   تعلقات خراب نہ  ہونے پائیں‘یہ بات البتہ خوش آئند ہے کہ چین تین آئی پیز کو مقامی کوئلے پر منتقل کرنے پر آ مادہ ہے۔وزیر خزانہ کا یہ بیان بہت دانشمندانہ ہے کہ ہمیں چین اور امریکہ دونوں بلاکس کے ساتھ آ گے چلنا ہے  سابقہ فاٹا ممنوعہ بور کے اسلحے کے ساتھ بھرا پڑا ہے‘اس اسلحہ میں وہ جدید اسلحہ بھی شامل ہے جو دہشت گرد پاکستان کے اندر استعمال کر رہے ہیں‘جو امریکی فوجی افغانستان چھوڑتے وقت وہاں چھوڑ گئے تھے اور جو وہاں کے دہشت گردوں کے ہاتھ لگ گئے ہیں‘  اس اسلحہ کی ایک بڑی تعداد انہوں نے سابقہ فاٹا کے قبائلیوں پر بھی  فروخت  کی  ہے‘اسلحہ کی اس بڑی کھیپ کو پرائیویٹ ہاتھوں سے ریکور کر کے اسے افواجِ پاکستان‘پولیس اور پیراملٹری فورسز کے حوالے کرنا جان جوکھوں کا کام ہوگا‘جس کی طرف اب تک وزارت داخلہ کی جس قدر توجہ مطلوب ہونی چاہیے تھی اتنی نہیں ہے‘ علاقے کو  ممنوعہ بور اسلحہ کی  لعنت سے پاک کرنا ہوگا‘جس کے لئے وزارت داخلہ کو قانون سازی بھی کرنا پڑے گی اور ایک قابل عمل حکمت عملی بھی اختیار کرنا پڑے گی‘تا کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے‘اس ضمن میں کلاشنکوف یا اسی قسم کے ممنوعہ بور کے اسلحہ کو پرائیویٹ ہاتھوں سے ریکور کرنا بہت ضروری  ہوگا۔ جس بات کا  اب ہم اب ذکر کرنیوالے ہیں اس سے پیشتر ذرا درج ذیل مثال  پڑھ لیں‘ ایک انگریز لکھاری نے ایک مرتبہ لکھا کہ انگلستان کے ناقابل اعتبار موسم کی ہر شخص شکایت کرتا ہے‘پر کوئی بھی اسے ٹھیک نہیں کرتا‘کچھ اسی قسم کی بات  ہمارے سوشل میڈیا کے بارے میں بھی کہی جا سکتی  ہے‘حکومت کا کوئی فرد ہو یا اپوزیشن کا‘ ہر کوئی سوشل میڈیا کے بارے میں گلہ کرتا ہے کہ اس  کی وجہ سے یہ ہو گیا ہے وہ ہو گیا ہے‘  پر کوئی بھی اس پر    قدغن لگانے کی کوشش نہیں کر رہا‘افسوس اس بات کا ہر محب وطن کو ضرور ہے کہ وطن عزیز میں اچھی سیاسی روایات کو کسی بھی سیاسی پارٹی نے قائم نہیں کیا‘ اس کے باوجود کہ 1951ء سے لیکر 1958ء پھر 1971ء سے 1977ء‘1990 سے 1999 ء اور اس کے بعد بھی تادم تحریر کئی سیاسی جماعتوں نے ایوان اقتدار میں وقت گزارا‘ کاش کہ انہوں نے اچھی سیاسی روایات کو پنپنے کا موقع دیا ہوتا‘یہ درست ہے کہ اس دوران یعنی 1951 ء سے  تا دم تحریر  ملک میں مارشل لا بھی لگے‘پر کیا یہ حقیقت نہیں کہ ایک لمبے عرصے تک وقفے وقفے سے اس ملک میں سیاست دان بھی وزارت عظمیٰ  اور صدارت کے مناصب پر فائز رہے ہے۔مون سون کی بارشوں نے گرمی کی شدت کی کمر تو توڑ دی ہے‘پر خدا کرے یہ بارشیں سیلابی صورت اختیار نہ کریں کیونکہ وطن عزیز میں  غریب عوام  کی ایک بڑی تعداد کچے  مکانوں میں رہتی ہے‘تب ہی تو احمد فراز کہہ  گئے ہیں کہ ان بارشوں سے دوستی اچھی نہیں فراز‘کچا تیرا مکان ہے کچھ تو خیال کر۔ 

سیاسی مبصرین کے مطابق اب تک امیر  جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان  کی بطور سیاست دان  کارکردگی متاثر کن رہی ہے اور لگ یہ رہا ہے کہ ان کی قیادت میں اس جماعت کی نشاۃ ثانیہ ہوگی۔