گزارشات کی ری پٹیشن

کہتے ہیں کسی شہر میں دو لوگ کاروباری شراکت دار تھے‘ ایک کو بولنے کا ملکہ حاصل تھا جبکہ دوسرے کو بھولنے کی عادت تھی‘ کچھ عرصہ بعد بولنے والے نے بھولنے والے سے استفسار کیا کہ ارے بھئی میں نے جو اتنی باتیں آپ کے گوش گزار کر لیں‘ شکایات کیں اور معروضات اور مطالبات کئے ان کا کیا بنا؟ دوسرے نے قدرے تامل سے ذرا سوچتے ہوئے کہا ہاں یہ تو یاد ہے کہ آپ نے کچھ کہا تھا مگر یہ یاد نہیں کہ کیا کہا تھا؟ یہی حالت پشاور یونیورسٹی کے ملازمین اور حکومت کے معاملات پر بھی صادق آتی ہے‘ اساتذہ کے دونوں دھڑوں نے حکومتی وزراء اور متعلقہ حکام سے اپنی ملاقاتوں اور اس سے قبل اپنے خطوط میں یونیورسٹی اور ملازمین کے مسائل‘ حالت کار بلکہ زار اور مطالبات و ضروریات کو بارہا اٹھاتے ہوئے اجاگر کیا مگر ہر بار یہی جواب ملا کہ حکومت مسائل کے حل میں سنجیدہ ہے کیونکہ تعلیم حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے‘ غالباً بنیادی وجہ یہی ترجیح ہو سکتی ہے کہ جامعہ کے ریٹائرڈ ملازمین پنشن اور بقایاجات کیلئے حاضر سروس تنخواہوں اور ترقیوں کیلئے اور یونیورسٹی وائس چانسلر اور پرو وائس چانسلر اور گرانٹ کی آمد کی راہ تکتے رہ گئی ہے‘ جامعہ کے انٹولیکچول فورم سے وابستہ اساتذہ کے بعد ٹیچرز ایسوسی ایشن کے اکثریتی گروپ فرینڈز سے وابستہ کابینہ اراکین نے ایک آدھ 
انٹولیکچول اراکین کے ہمراہ اعلیٰ تعلیم کے وزیر سے ملاقات کر کے جامعہ اور اساتذہ کے مسائل ان کے سامنے رکھ دیئے۔ اب یہ سوال بھی بعض معاملہ فہم اور سنجیدہ لوگوں کیلئے جواب طلب ہے کہ تعلیم تو ایک ہے مگر وزیر دو ہوا کرتے ہیں؟ یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے وائس چانسلر اور پرو وائس چانسلر؟ اور پھر وائس چانسلر کا ٹینور یا مدت ملازمت تین سال جبکہ پرو وائس چانسلر کی دو سال رکھی گئی ہے اور اس سے بھی نہ صرف قدیم درسگاہ بلکہ صوبے کی کئی یونیورسٹیاں عرصہ سے محروم ہیں۔ سنا ہے کہ وزیر صاحب سے پیوٹا وفد کے ملاقات میں روایتی طریقہ کے مطابق مسائل کے حل جبکہ وفد کی جانب سے ہر کوشش میں تعاون کا یقین دلایا گیا ہے‘ ملاقات کی اندرونی کہانی کے مطابق اساتذہ نمائندوں سے کہا گیا ہے کہ اعلیٰ تعلیمی اصلاحات کیلئے بنائی گئی ٹاسک فورس کمیٹی کی تجاویز اور سفارشات کی روشنی میں ترمیم شدہ ماڈل ایکٹ 2016ء میں مزید ترامیم سے جامعات کے سارے مسائل حل ہو جائینگے‘ اب 
یہاں پر کہنے بلکہ استفسار کی بات یہ ہے کہ کیا ایکٹ 2016ء جامعات کو گرانٹ کی فراہمی یعنی اعلیٰ تعلیمی بجٹ مختص ہونے جبکہ وائس چانسلر اور پرو وائس چانسلر کی تقرری کی راہ میں رکاوٹ ہے؟ اگر ایسا نہیں تو پھر کیا وجہ ہو سکتی ہے کہ صوبے کی جامعات مالی اور انتظامی بحران سے دو چار اساتذہ اور ایڈمن سٹاف ترقیوں سے محروم اور صوبے کی دو درجن یونیورسٹیاں وائس چانسلر اور پرو وائس چانسلر کی تقرری کی راہ تک رہی ہیں؟ صرف پشاور یونیورسٹی کے سینکڑوں اساتذہ ترقیوں سے محروم اور ان میں ایک سو کے قریب وہ اساتذہ بھی شامل ہیں جو پی ایچ ڈی ہولڈر کے باوجود عرصہ آٹھ اور دس سال سے لے کر پندرہ اور سولہ سال سے محض لیکچرر کے طور پر کام کر رہے ہیں جن میں ایک بڑی تعداد خواتین کی بھی ہے اسی طرح پرسنل گریڈ کے فریق کو بھی بوجہ مالی اور انتظامی بحران طاق نسیان میں رکھا گیا ہے جبکہ کئی اساتذہ عدالتی احکامات اور سلیکشن بورڈ سے گزرنے کے باوجود تاحال اگلے گریڈ میں نہیں گئے‘ الغرض ان سارے مسائل کا حل اسی میں مضمر ہے کہ سب سے پہلے تو حقیقی معنوں میں تعلیم حکومتی ترجیحات میں شامل ہو جائے‘ قواعد و ضوابط کی پاسداری یقینی ہو اور یونیورسٹیاں کفایت شعاری کے اصول اور جذبے یا حکومتی احتساب کے تحت اپنی چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانے کا طریقہ کار اپنائیں بصورت دیگر خالی باتوں یعنی محض طفل تسلیوں سے کچھ بھی برآمد نہیں ہوگا۔