کرکٹ میں زوال کے آثار

ہمارا سکواش کا کھیل اور ہاکی کی گیم  تو ایک عرصہ ہوا،روبہ زوال ہے‘اب کرکٹ میں بھی زوال کے آ ثار نمایاں ہو رہے ہیں۔ شاہد آفریدی کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ باہر  بیٹھ کر کسی کی طرف داری کریں اور نہ ہی ملک کے ارباب اقتدار کو کہ وہ پاکستان کرکٹ کنٹرول بورڈ کے اہم انتظامی مناصب پر سیاسی بنیادوں ہر تعیناتی کریں‘ ہر  اس ملک میں سپورٹس کا دھڑن تختہ ہو جایا کرتا ہے کہ جب ان کو چلانے والے اداروں  میں  بھی سیاسی مداخلت عام ہو جائے۔ دراصل پاکستان کرکٹ کنٹرول بورڈ کے عہدید داران کے مشاہرے اتنے زیادہ ہیں کہ ان پر بسا اوقات حکومت وقت اپنے منظور نظر افراد کو نوازنے  کے لئے تعنیات کر دیتی ہے‘جہاں تک سپورٹس مین کا تعلق ہے‘ اب وہ کھلاڑی کم اور مختلف برانڈ کی مصنوعات کے سیل مین زیادہ نظر آ نے لگے ہیں‘  ایڈورٹائزنگ ایجنسیوں نے انہیں اپنا سیل ایمبیسیڈر بنا دیا ہے۔چھوٹی سی عمر میں کسی بھی بندے کے ہاتھ بغیر ضروری محنت  کے اگر حد سے زیادہ دھن آ جائے تو اس کا دماغ ویسے بھی خراب ہو جایا کرتا ہے۔وزیر خزانہ نے بالکل درست فرمایا ہے کہ اگر ٹیکس نیٹ نہ بڑھایا تو بند گلی میں چلے جائیں گے‘ریٹیلرز پر ٹیکس بھی ضروری ہے اور زرعی ٹیکس کا نفاذ بھی وقت کا تقاضا ہے‘ ان لوگوں پر بھاری بھر کم ٹیکس کیوں نہیں لگایا جا سکتا کہ جو کئی کئی کنالوں پر محیط محل نما بنگلوں میں رہتے ہیں‘جن کے بنگلوں کے کار پورچ میں کروڑوں روپے مالیت کی ایک سے زیادہ گاڑیاں کھڑی ہوتی ہیں‘جن کے بال بچے ملک کے ان سکولوں میں زیر تعلیم ہوتے ہیں کہ جن کی فیس ڈالروں میں ادا کی جاتی ہے یا پھر غیر ملکی مہنگے ترین تعلیمی اداروں میں پڑھ رہے ہیں  جو ہر سال ایک سے زیادہ مرتبہ  بیرون ملک شاپنگ یا سیر سپاٹے کے واسطے یورپ امریکہ کا چکر لگاتے ہیں ان کے تو تمام اخراجات پہلے سے ہی دستاویزی ہیں اور ان پر ٹیکس لگانے کے واسطے کسی مزید انکوائری کی ضرورت  نہیں ۔ بجلی  کے بلوں کو کم کر کے عام آدمی کے واسطے ان کی ادائیگی آ سان کرنے کا ایک طریقہ ملک میں سولر انرجی کا پھیلاؤ ہو سکتا ہے‘ پر سولر انرجی پیدا کرنے کیلئے ابتداء میں جو سازو سامان گھروں میں لگانا ضروری ہوتا ہے‘وہ اتنا مہنگا ہے کہ ایک اوسط درجے کی آمدنی والے فرد کی جیب اسے برداشت نہیں کر سکتی‘ لہٰذا اس ضروری سازو سامان کی قیمتوں کو کم کرنے کی طرف سے حکومت کی توجہ درکار ہے۔