خلقت خدا نے شکر کا کلمہ پڑھا جب اگلے روز ملک میں گرمی کی شدت کو مون سون کی جھڑی نے توڑا‘گو بعض نشیبی علاقوں میں یہ جھڑی باران رحمت کی بجائے باران زحمت بھی ثابت ہوئی جب اس نے سیلابی بارش کی شکل اختیار کی‘ہمارے متعلقہ سرکاری ادارے ماضی سے کچھ نہیں سیکھتے اور برساتی نالوں اور پانی کی قدرتی گزرگاہوں کی بروقت صفائی کا خیال نہیں رکھتے اور عوام بھی ہر گند بلا محلوں اور سڑکوں کے ساتھ واقع پانی کے کے نالوں اور نالیوں میں کچرا اور پلاسٹک کے تھیلے پھینک کر پانی کے قدرتی بہاؤ کے رستے میں رخنہ ڈال دیتے ہیں۔ جس کا نتیجہ پھر یہ نکلتا ہے کہ بارش میں سڑکیں اور گلیاں دریا میں تبدیل ہو جاتی ہیں‘ نہ جانے ہم میں بحیثیت قوم civic sense یعنی شہری اور تمدنی شعور کب پیدا ہوگا؟۔ حماس کے سربراہ کی اسرائیل کے ہاتھوں ہلاکت بلا شبہ جلتی پے تیل ڈالنے کے مترادف ہے‘ اس سے مشرق وسطیٰ کے حالات مزید بگڑ رہے ہیں اور عین ممکن ہے کہ یہودیوں کی یہ سازش عالمی جنگ کا پیش خیمہ بن جائے۔ سپر پاورز میں صرف امریکہ ایساملک نظر آ رہا ہے کہ جو بڑی ڈھٹائی کے ساتھ اسرائیل کا ساتھ دے رہا ہے‘چین اور روس کا رویہ اس معاملے میں اتنا جانبدارانہ نہیں کہ جتنا امریکہ کا نظر آ رہا ہے دراصل بقول کسے امریکہ سیاسی طور پر تو جمعہ جمعہ آ ٹھ دن کی پیداوار ہے اس کو قائم ہوئے تو ابھی چند سو برس ہی ہوئے ہیں‘ اسے nation of nations کہا جاتا ہے اور طنزاً اس کے لئے ملغوبہ کا لفظ استعمال ہوتاہے کیونکہ اس میں تقریباً تقریباً ہر ملک کا فرد آباد ہواہے ‘اس کے برعکس چین کی ایک لمبی انفرادی قسم کی سیاسی تاریخ ہے جو کئی ہزار سالوں پر محیط ہے‘اس کی سیاسی قیادت میں جو سیاسی فہم اور دوراندیشی ہے امریکہ کی سیاسی قیادت میں اس قسم کے سیاسی ادراک کا عشر عشیر بھی نہیں پایا جاتا‘ اس معاملے میں تو انگلستان بھی
امریکہ سے کئی گام آ گے ہے‘امریکہ تو صرف روزویلٹ جیسا لیڈر ہی پیدا کر سکا ہے جس کو ہم انگلستان کے ونسٹن چرچل کا ہم پلہ کہہ سکتے ہیں‘ورنہ وہاں تو کلنٹن‘ بش‘ ٹرمپ اور بائیڈن جیسی اوسط ذہانت کے لیڈر ہی صدارت کے منصب پر فائز ہوتے آ ئے ہیں‘ اسرائیل اور فلسطین کے مسئلے پر ہی آپ دیکھ لیجئے‘ان دو ممالک کی حکمت عملی میں کتنا زیادہ فرق ہے دنیا کے اور کئی مسائل ہیں کہ جن کے بارے میں چین نے جو بھی موقف اپنایا وہ امریکہ کی پالیسیوں سے بدرجہا بہتر ہے۔ ادھر بھارت میں نریندرا مودی کی حکومت آ ئے دن کوئی نہ کوئی ایسا اقدام اٹھاتی رہتی ہے کہ جس سے ثابت ہوتا رہتا ہے کہ وہ مسلمانوں کی کس قدر دشمن ہے۔ اگلے روز اس نے بھارت میں 8000 مدارس بند کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے اس میں ممکنہ بند کئے جانے والے اداروں میں عالمی شہرت یافتہ دارالعلوم دیوبند جامعہ سلفیہ بنارس اور جامعہ اشرفیہ شامل ہیں‘ ان مدارس کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر دیا گیا ہے اور طلباء کو ریگولر سکولوں میں داخل کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔اس بات میں تو دوآ راء ہو ہی نہیں سکتیں کہ وطن عزیز کے دشمن اس بات پر سخت سیخ پا ہیں کہ پاکستان میں سی پیک کے تحت جو ترقیاتی منصوبے زیر تکمیل ہیں ان کے مکمل ہونے کے بعد اس ملک کی کایا ہی پلٹ جائے گی اور معاشی طور پر پاکستان بہت مضبوط ہو جائے گا‘ اس لئے وہ ملک کے اندر ایسے حالات پیدا کر رہے ہیں کہ یہاں پر کام کرنے والے چینی ماہرین دل برداشتہ ہو کر یہاں سے کوچ کر جائیں‘اس لئے بہت ضروری ہے کہ حکومت ان کی سکیورٹی کا خصوصی خیال رکھے۔یہ صرف وطن عزیز کا ہی المیہ نہیں کہ زندگی کے ہر شعبے میں اچھی قیادت کا قحط الرجال نظر آ رہا ہے ‘کھیلوں کی دنیا میں ہاشم خان‘ ڈونلڈ بریڈمین دھیان چند اور میراڈونا جیسے نابغوں کو کہاں ڈھونڈیں کہ جنہوں نے بالترتیب سکواش کرکٹ‘ہاکی اور فٹبال کی دنیا میں کافی نام کمایا تھا‘ فلم انڈسٹری نے سر آلیور لارنس انگرڈ بر گمن‘ صوفیہ لورین‘ دلیپ کمار‘ مدھو بالا اور پرتھوی راج کپور جیسے فنکار پھر پیدا نہیں ہوئے۔