حکمرانوں کے خلاف انقلابات ان ممالک میں اس وقت برپا ہوتے ہیں جب رعایا کا ایک بڑا حصہ کھانے پینے کی چیزوں کا محتاج ہو جائے اور اشرافیہ کو ان کی کوئی پرواہ نہ ہو اور عوامی مشکلات سے بے غرض ہو جائے۔ ابتداء آ فرینش سے لے کر آج تک دنیا نے کئی انقلاب دیکھے‘ پر آج کے اس کالم کے آ غاز میں ہم ماضی بعید میں جانے کے بجائے انقلاب فرانس کا ذکر کرنا چاہیں گے‘ جس نے دنیا میں کئی انقلابی تحریکوں کو کئی ممالک میں جنم دیا‘اس انقلاب کا جو پرچم تھا اس پر تین نعرے لکھے ہوئے تھے‘ آزادی‘مساوات اور اخوت۔ اس انقلاب کے نقیب کانام روسوتھا، اس کی رائے میں ابتدائی انسان نہایت نیک بھولا بھالا اور معصوم تھا‘غرور ہوس‘ نفرت اور عداوت لڑائی‘فساد غرض یہ کہ معاشرے کی تمام برائیوں سے پاک‘ وہ بڑی سادہ زندگی بسر کرتا تھا‘ پیاس لگتی تو چشمے سے پانی پی لیتا‘بھوک لگتی تو درختوں کے پھل کھا لیتا، نیند آ تی تو کسی درخت کے سائے میں پاؤں پھیلا کر سو جاتا۔نہ غم امروز نہ فکر فردا‘ نہ کوئی کسی کا آقا نہ کوئی کسی کا محکوم‘ انسان کی آ زادی سلب ہو گئی اور قناعت کی جگہ نفع خوری اور مفاد پرستی نے غلبہ پایا‘ وہ لکھتا ہے کہ بعد میں تغیر و تبدل ہوتا گیااور انقلاب فرانس کے بڑے دور رس نتائج نکلے۔اسی کی دیکھا دیکھی آسٹریا‘ ہنگری‘چیکو سلواکیہ‘اٹلی‘پولینڈ‘ ہالینڈ‘بلجیم‘جرمنی‘ غرض یہ کہ یورپ کے قریب قریب سب ہی ملکوں میں آزادی اور جمہوریت کا غلغلہ بلند ہوا اور مسلح بغاوتیں ہوئیں‘ روسو کی کتاب معاہدہ عمرانی 1762ء میں چھپی‘انگلستان کی اشرافیہ بڑی ہوشیار ثابت ہوئی‘ اس نے جب دیکھا کہ انقلاب فرانس میں وہاں کے انقلابیوں نے وہاں کی اشرافیہ کی کیا درگت بنائی ہے تو اس نے انگلستان میں سوشل سکیورٹی کا نظام قائم کر دیا‘جس سے وہاں کے عام آدمی کی بنیادی ضروریات پوری ہونے لگیں ‘ان کے دیکھا دیکھی ناروے‘ سویڈن اور ڈنمارک نے بھی اپنے ہاں سوشل سکیورٹی کا نظام نافذ کر لیا اور اس طرح اپنے ملکوں کا سیاسی اور معاشی استحکام بخشا‘ اس کے بر عکس جن ممالک میں سرمایہ دارانہ نظام معشیت قائم رہا وہاں جلد یا بدیر عوامی تحریکیں سر اٹھاتی رہیں‘یہ بات تو طے ہے کہ کسی بھی ملک میں اگر آ بادی کے درست اور تازہ ترین اعدادو شمار نہ ہوں تو وہاں کا پلاننگ کمیشن اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتا ہے اور زندگی کے کسی شعبے میں بھی عوامی بہبود کا کام زمینی حقائق کے مطابق سر انجام نہیں ہو پاتا‘اس لئے سیانوں نے کہا ہے کہ ملک میں database(ڈیٹا بیس) کو باقاعدگی سے ہر سال اپ ٹو ڈیٹ کرنا بڑاضروری ہوتا ہے۔وطن عزیز میں مردم شماری کا پروگرام کوئی زیادہ تسلی بخش نہیں رہا ہے‘ لہٰذا اس میں بھی اصلاحات کی کافی گنجائش ہے۔ ان ابتدائی سطور کے بعد قارئین کی خدمت میں تازہ ترین قومی اور عالمی اہم واقعے کا ہلکا سا تذکرہ بے جا نہ ہوگا‘اس وقت جس بات کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ ملک بھر میں باریک بینی سے مردم شْماری کروائی جائے۔ وطن عزیز کی طرح بنگلہ دیش بھی سیاسی طور پر عدم استحکام کا شکار ہے‘ آئے دن کے عوامی مظاہروں نے اس کی معشیت کا بھی کچومر نکال کر رکھ دیا ہے انگلستان میں اکثر سٹریٹ کراہمز افریقہ کے سیاہ فام تارکین وطن کرتے ہیں اور اس کے ردعمل میں تشدد کا شکار وہاں آ باد پاکستانی ہوتے ہیں‘جن کو گورے سیاہ فام افراد کے کھاتے میں شمار کر کے بدلے کی آگ بجھانے کے لئے ان پر حملہ آ ور ہوتے ہیں‘ آج کل یہی کچھ لندن کے ایک نواحی علاقے میں ہو رہا ہے۔جس سرعت اور عجلت سے امریکہ نے اپنے ایک بحری بیڑہ ایران کی جانب روانہ کر دیا ہے اس سے زیادہ بھلا اس بات کا اور کیا ثبوت درکار ہے کہ امریکہ کے پالیسی ساز ادارے اسرائیل کے ہاتھوں میں کس قدر کھیل رہے ہیں۔
1950ء کی دہائی میں ہمارے حکمرانوں نے امریکہ کی کمیونزم کے خلاف سرد جنگ میں کس قدر اندھی تقلید کی تھی‘ پر جب 1971ء کی پاک بھارت جنگ میں ہم پر برا وقت آیا تو ہماری مدد کو تو امریکہ نے اپنا بحری بیڑہ نہ بھجوایا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔