قائد کی باتیں

14اگست کی آ مد آمد ہے اس لئے بہتر ہوگا کہ ہم آ ج اس حوالے سے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی ذات سے جڑی ہوئی بعض  باتوں  کے بارے میں چند گذارشات سے ہی کالم کا آ غاز کریں‘ بانی پاکستان ایک ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے ان کے قول  و فعل میں کوئی تضاد نہ تھا جو ان کے دل میں ہوتا وہ ہی ان کی زبان پر ہوتا۔  پہلے ایک دلچسپ قصے کا ذکر ہو جائے تو بہتر ہوگا‘ ایک مرتبہ وہ ایک جلسہ عام   سے خطاب کر رہے تھے ان کی تقریر گو کہ اردو میں تھی پر اس میں وہ انگریزی کے الفاظ بھی استعمال  کر رہے تھے‘جلسہ گاہ میں TIME  میگزین کا نمائندہ  بھی موجود تھا اس  نے دیکھا کہ جلسہ گاہ میں کافی ایسے دیہاتی  افراد بھی موجود تھے جو اردو اور انگریزی زبان سے نا بلد تھے‘ پر وہ بھی قائد کی تقریر کے ہر جملے پر  زور زور سے تالیاں بجا رہے تھے‘ جلسے کے اختتام پر اس نے جب ان سے پوچھا کہ وہ تو ان زبانوں سے  نا بلد ہیں کہ جن میں قائد تقریر کر رہے تھے تو پھر  ان کے پلے کیا پڑ رہا تھا جو وہ تالیاں بجا رہے تھے تو اس کا جواب انہوں نے یوں دیا کہ قائد کھرے اور سچے انسان ہیں اس لئے ہمیں پورا یقین تھا کہ وہ جو کچھ بھی فرما رہے ہیں اور جس زبان میں بول رہے وہ سچ ہے  وہ سو فیصد درست ہے‘ اس جواب سے بڑھ کر قائد کی راست گوئی  کا  بھلا  اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے۔ سرکاری میٹنگز کے دوران عرصہ دراز سے  چائے نوشی اور کھانے پینے پر  مال مفت دل بے رحم سمجھ کر جس بے دردی سے سرکار کا پیسہ خرچ کیا جارہا ہے اس سے ایک دنیا باخبر ہے پر اس بابت ایک قصہ آپ پڑھ لیجئے جو اس وقت پیش آیا  تھا جب بانی پاکستان گورنر جنرل تھے‘گورنر ہاؤس کراچی میں ان کی صدارت میں کابینہ کی میٹنگ ہونی تھی چنانچہ میٹنگ سے ایک روز قبل بانی پاکستان سے ان کے اے ڈی سی  نے  پوچھا کہ سر میٹنگ کے شرکاء  کی میٹنگ کے دوران چائے سے تواضع کی جائے‘ چائے یا کافی سے؟جس پر انہوں نے کہا‘کیا میٹنگ کے شرکا ء گھر سے ناشتہ کر کے نہیں آئیں گے‘ اس کے بعد یہ معمول بن گیا کہ جب بھی گورنر جنرل ہاؤس میں کبھی میٹنگ ان کی صدارت میں ہوتی تو شرکاء کی تواضع سادہ پانی سے کی جاتی‘ اسی قسم کی قناعت کی  ایک مثال  ہمیں  چین میں بھی ملتی ہے۔چین کے سربراہ ماؤ زے تنگ کو جب بھی کوئی سرکاری مہمان پیپلز ہال میں ملنے آتا تو اس کی تواضع سادہ قہوہ کے ایک کپ سے کی جاتی۔جس طرح قائد اسراف کے خلاف اور قناعت کے طرفدار تھے بالکل اسی طرح وہ سفار ش کے بھی سخت مخالف تھے جب وہ زیارت میں صاحب فراش تھے تو ان کی دیکھ بھال پر جو نرس مامور تھی اس کا تعلق پنجاب سے تھا‘ اس نے کہیں ایک دن قائد سے یہ کہہ دیا کہ وہ سیکرٹری ہیلتھ سے کہہ کر ان کا تبادلہ پنجاب کروا دیں جس پر انہوں نے یہ جواب دے کر انکار کر دیا کہ وہ سرکاری افسروں کے کام میں مداخلت کو برا سمجھتے ہیں۔ اسی طرح  ایک مرتبہ ہندوستان سے آئے ہوئے ایک مہاجر نے ان کو کہا کہ وہ کمشنر کراچی سے سفارش کر دیں کہ وہ ان کو آ ؤٹ آف ٹرن ایک گھر الاٹ کر دیں تو انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ حنیف آ زاد ایک لمبے عرصے تک قائد کے ڈرائیور رہے تھے‘ انہوں نے اپنی یاداشتوں میں لکھا ہے کہ انہوں نے ایک مرتبہ رات کو اپنی آ نکھوں سے خود دیکھا کہ قائد گورنر ہاؤس کی کئی بتیوں کا سوئچ اپنے ہاتھوں سے آ ف کر رہے تھے جو ان کے خیال میں فالتو تھیں‘ قائد بولتے کم تھے پر ان کے ہر قدم میں ایک  پیغام ہوا کرتا تھا۔ 1945 ء میں وہ پشاور کے دورے کے دوران ایک نجی رہائش گاہ میں ٹھہرے ہوئے تھے‘ایک دن سہ پہر 4 بجے ان سے ملاقات کے لئے ایک سینئر مسلم لیگی نے آنا تھا‘قائد سے ملاقات کے وقت مقررہ سے جب وہ پندرہ منٹ لیٹ پہنچا تو قائد  نے اس سے یہ کہہ کر ملنے سے انکار کر دیا کہ جس وقت وہ پہنچا ہے اس وقت تو انہوں نے کسی دوسرے ملاقاتی کو ملاقات کا ٹائم دے رکھا ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ وقت کی پابندی اور قدر کرتے تھے اور اپنے عمل اور کردار  سے لوگوں کو اچھے اچھے پیغام دیا کرتے تھے۔