ستر سال سے زائد عرصہ ہو گیا ہے ہمیں آ زادی ملے اور یہ عرصہ ایک بڑا عرصہ ہوتا ہے قدم جمانے کے واسطے پر افسوس صد افسوس ہم آج بھی لڑکھڑا رہے ہیں زمین پر ابھی تک ہمارے قدم نہیں جمے جب بھی کوئی نیا حکمران اپنے عہدے کا حلف اٹھاتا ہے وہ اپنی پہلی تقریر میں اسی بات کا رونا روتا ہے کہ اسے خالی خزانہ ملا ہے وہ عوام سے قناعت کی ضرورت کا تو تذکرہ کرتا ہے پر خود سرکاری مال پر اسی قسم کے اللے تللے کرتا ہے جو اس کے پیشرو کر گئے ہوتے ہیں عوام اتنے سادہ لوح ہیں کہ وہ جانتے بوجھتے ہوئے بار بار ان ہی کے جھانسے میں آ کر انہیں اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان کر دیتے ہیں اگر کئی ممالک ہر میدان میں عروج تک پہنچ چکے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کو جو قیادت ملی وہ اخلاقیات سے اتنی عاری نہ تھی جتنی کہ ہماری تھی بھارت بھی ایک ہی دن ہمارے ساتھ آ زاد ہوا پر چونکہ اسے پنڈت جواہر لعل نہرو کی شکل میں ایک لمبے عرصے تک وزیراعظم میسر آیا اس میں فوراً آئین بھی بن گیا جاگیری اور نوابی ریاستیں بھی ختم ہو گئیں جبکہ ہم نے 1951ءسے 1958ءتک اتنے وزیر اعظم بدلے کہ نہرو نے یہ طنزیہ جملہ استعمال کیا کہ میں
سال میں اتنی دھوتیاں نہیں بدلتا کہ پاکستان جتنے وزیر اعظم بدلتا ہے اس دوران اگر کوئی ایسا حکمراں آیا بھی کہ جس نے وزراءاور سرکاری اہلکاروں کو بڑی بڑی مہنگی سرکاری گاڑیوں کے استعمال سے روکا اور انہیں چھوٹی گاڑیاں استعمال کرنے کی ترغیب دی تو اس کا تمسخر اڑایا گیا۔ عربی زبان کی ایک کہاوت ہے کہ رعایا بادشاہوں کا طرز زندگی اپنانے کی کوشش کرتی ہے چونکہ اس ملک کے حکمران اور اشرافیہ نے اپنے طور طریقے رہن سہن اور بودوباش میں وہ طرز عمل اپنایا کہ جس کا اس ملک کا عام شہری بغیر اوپر کی آ مدنی اور کرپشن میں ملوث ہوئے بغیر متحمل نہیں ہو سکتا تھا ملک میں کرپشن کا چلن پھیلا اور عام آدمی کی زندگی روز بروز اجیرن ہوتی رہی۔ ان کلمات کے بعد تازہ ترین قومی اور عالمی واقعات کا تذکرہ بے جا نہ ہو گا۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب
منیر اکرم نے بالکل درست کہا ہے کہ اسرائیل اور بھارت غاصب ہیں اور یہ کہ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کا اطلاق صرف فلسطینی علاقے پر نہیں بلکہ بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط کشمیر پر بھی ہوتا ہے استصواب رائے لازمی شرط ہے۔ پاکستان میں عام آدمی جس مالی زبوں حالی کا شکار ہے اس کا اندازہ آپ اس امر سے لگاسکتے ہیں کہ 74فیصد پاکستانی اپنی موجودہ آمدنی میں اپنے اخراجات پورے نہیں کر پا رہے ۔ چین سعودیہ اور امارات نے پاکستان کو فراہم کئے گئے قرضوں کی ایک سال کیلئے رول اوورز کی یقین دہانی تو دے دی ہے پر اس پر بغلیں بجانے کے بجائے وطن عزیز کے ارباب بست و کشاد کو ابھی سے ایسی حکمت عملی مرتب کرنے کی ضرورت ہے کہ آئندہ قرضے لینے کی نوبت ہی نہ پیش آ ئے۔ وزیر اعظم کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ بیرون ملک دوروں میں کفایت شعاری کی پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے اس ضمن میں حکمرانوں کو پہلے خود مثال قائم کرنا ہو گی اور اپنے بیرون ملک دورے چارٹرڈ جہاز کے بجائے کمرشل فلائٹ میں کرنے ہونگے اور ان دوروں میں بڑے بڑے وفود کے بجائے کم سے کم افراد کو اپنے ساتھ لے جانا ہو گا نیز ہر وزیر یا سرکاری افسران کو فرسٹ کلاس یا بزنس کلاس کے بجائے اکانومی کلاس میں سفر کرنا ہو گا۔