کم و بیش آئندہ پانچ مہینوں تک دنیا کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر امریکہ کے صدارتی الیکشن کا غلغلہ رہے گا، قسم قسم کے تجزیے دیکھنے اور سننے کو ملیں گے‘ امریکہ کی دونوں سیاسی پارٹیوں یعنی ڈیمو کریٹک اور ری پبلکن پارٹیوں نے اس الیکشن میں جو امیدوار کھڑے کئے ہوئے ہیں ان میں کوئی بھی کرشماتی شخصیت کا مالک نہیں ہے‘نہ ان کی شکل وشباہت جاذب نظر ہے اور نہ ان میں رچرڈ نکسن‘روزویلٹ اوباما ابراہام لنکن جیفرسن اوآئزن ہاور جیسی سمجھ بوجھ اور سیاسی فہم و ادراک رکھنے والا کوئی دور اندیش انسان نظر آتا ہے‘ ایسا لگتا ہے کہ امریکہ کی سیاسی قیادت میں فراست کا فقدان ہے‘ اگلے سال کا جب سورج طلوع ہو گا اور اس کے ساتھ ہی جب نیا امریکی صدر وائٹ ہاؤس کے اوول آفس oval office میں اپنی کرسی پر براجمان ہو گا تو تب کہیں جا کر پتہ چلے گا کہ وہ دنیا میں چین کے ہر میدان میں بڑھتے ہوئے اثر و نفوذ کو کم کرنے یا روکنے کے واسطے کیا قدم اٹھاتا ہے‘ اس جملہ معترضہ کے بعد ہم نہج البلاغہ میں درج حضرت علی کرم اللہ وجہہ‘ کا ایک فرمان قلمبند کرتے ہیں اپنے قارئین کے لئے‘اس امید کے ساتھ کہ وہ اسے باریک بینی کے ساتھ پڑھ کر اپنے دل پرہاتھ رکھ کر اپنے ضمیر سے یہ سوال کریں گے کہ وہ اس کی روشنی میں کہاں پر کھڑے ہیں۔”اللہ کا ایک فرشتہ ہر روز یہ ندا کرتا ہے کہ موت کے لئے اولاد پیدا کرو‘بربادہونے کے لئے جمع کرو اور تباہ ہونے کے لئے عمارتیں کھڑی کرو“ہم میں سے اکثر اس دنیا میں اپنی دولت میں اضافہ کرنے میں اس قدر مگن ہیں کہ ہم یہ بات بھول چکے ہیں کہ ہم میں سے سب کو صرف چھ ضرب چھ فٹ ٹکڑا زمین درکار ہے‘باقی سب کچھ بے کار‘ بھلے ہم سنگ مر مر سے مزین محلات کیوں نہ کھڑے کر دیں۔
شاعرنے کیا خوب کہا ہے۔ جائے گا جب یہاں سے کچھ بھی نہ پاس ہوگا‘ دو گزکفن کا ٹکڑا تیرا لباس ہوگا...
اور سوچنے کا مقام یہ ہے کہ کفن کی تو جیب بھی نہیں ہوتی‘ بزرگوں نے اسی لئے ہی تو یہی نصیحت کی ہے کہ ہر انسان کو مہینے میں کم از کم ایک مرتبہ شہر خموشاں کا چکر ضرور لگانا چاہیے۔ حسینہ واجد ”بڑے بے آ بروہوکر تیرے کوچے سے ہم نکلے“ کے مصداق اپنے ملک سے فرارہو کر بنگلہ دیش کے ”خیرخواہ“ ملک بھارت پہنچیں اور اب کسی بھی ملک میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے کی تگ و دو میں ہیں‘اکثر ملک انہیں سیاسی پناہ دینے کو تیار نہیں۔کاش کہ دنیا کے ان ممالک کے حکمران جو جبر سے عوام پر حکومت کرتے ہیں‘حسینہ واجد کے انجام سے سبق لیں۔ ویسے کئی دانشوروں کو بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ کا یہ پیغام اچھا نہیں لگا جس میں انہوں نے بنگلہ دیش کے طلبا ء کو بنگلہ دیش کی حکومت کو بزور شمشیر ہٹانے پر مبارکباد دی ہے‘ ان کی دانست میں یہ بیان غیر دانشمندانہ تھا اور وہ اس ضمن میں یہ مثال پیش کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک ھندو بنیے کی دکان کے آ گے سے ایک سانپ گزر گیا‘ وہ ہندو پہلے ہنسا اور پھر رویا‘ جب لوگوں نے اس سے پوچھا کہ پہلے ہنسنے اور پھر رونے کی وجہ کیا تھی تو اس نے کہا کہ میں ہنسا اس لئے کہ اس نے مجھے کاٹا نہیں اور رویا اس لئے کہ اس نے میری دکان کا رستہ دیکھ لیا ہے لہٰذا وہ پھر بھی کسی وقت دوبارہ آ سکتا ہے۔ دانشوروں کے مطابق وہ طلباء جنہوں نے حسینہ واجد کو اقتدار سے ہٹایا کل کلاں اپنے اس عمل کو کسی اور حکمران کو ہٹانے کے لئے بھی استعمال کر کے ملک کو پھر افراتفری کا شکار کر سکتے ہیں۔بنگلہ دیش کے عبوری سربراہ ڈاکٹر یونس نے بطور بینکر اس وقت کافی نام کمایا جب انہوں نے اپنے ملک سے غربت ختم کرنے کے واسطے مائیکرو فنانسنگ کے ذریعے چھوٹے چھوٹے قرضے تقسیم کئے اور اس کام کے اعتراف میں ان کو 2006ء میں نوبل پرائز ملا‘ غالبا ًاس وقت بنگلہ دیش کی فوج کو ڈاکٹر یونس سے بہتر شخصیت نہیں مل سکتی تھی جو ان کے ملک کو موجودہ سیاسی بھنور سے بخیریت باہر نکال سکے۔ ہر سال ساون کی بارشوں کی وجہ سے ان میونسپل اداروں کا بھرم ٹوٹ جاتا ہے اور ان کے جھوٹے دعوؤں کی قلعی کھل جاتی ہے کہ انہوں نے شہر میں پانی کے بہاؤ کی قدرتی گزرگاہوں کی صفائی کر رکھی ہے کیونکہ ہمارے شہر کی ہر سڑک بارش کے بعد نہر بن جاتی ہے۔