کئی لوگوں کی سمجھ سے یہ بات بالاتر ہے کہ گرمی کے شدید موسم میں ہمارے اکثر وزراء اور اعلیٰ عہدوں پر فائز افسران سوٹ اور ٹائی میں ملبوس کیوں ہوتے ہیں‘کیا ان کو گرمی نہیں لگتی یا وہ کاٹن سے سلی ہوئی قمیض اور شلوار پہننے کو اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں‘اس بات کا احساس ہمیں آج پھر ٹی وی سکرین پر بنگلہ دیش کے عبوری صدر ڈاکٹر یونس کو سادہ قسم کی شلوار قمیض اور واسکٹ میں ملبوس دیکھ کر ہوا‘ یہ درست ہے کہ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے ہمارے ارباب اقتدار کی رہائش گاہ‘گاڑی اور دفتر سب ائر کنڈیشنڈ جب ہوں تو ان کو موسم گرما میں پتلون کوٹ پہننے اور گلے میں ٹائی باندھنے سے گرمی کیوں لگے‘پر کیا یہ بہروپ غیر فطری اور نمائشی نہیں؟ائر کنڈیشنرزکا استعمال اگر نہ ہو یا کم کر دیاجائے تو کیا اس سے توانائی کا استعمال کم نہ ہو گا‘جس کی آج کل قلت ہے‘ پر ان باریکیوں کا آج کل کون خیال رکھتا ہے‘ کبھی کبھی ہر محب وطن ذی شعور یہ سوچ کر اس ملک کے حکمرانوں سے بجا طور یہ گلہ مند ہے کہ انہوں نے اپنے اپنے ادوار حکومت میں جہاں اور عوامی مسائل کا عوام دوست حل نہیں نکالا وہاں ان کو ایک اچھا اور سستا ٹرانسپورٹ سسٹم بھی فراہم نہ کیا‘ہونا تو یہ چاہیے تھاکہ ہر شہر میں سرکلر ریلوے چلتی اور اس کے ساتھ ساتھ ٹرام سروس بھی موجودہوتی جو شہر کے ہر حصے تک مسافروں کو لے جاتی تاکہ ٹرانسپورٹ مافیا سے عام آدمی کی جان چھوٹتی اور وہ ان کو جانوروں کی طرح پرانی اور بوسیدہ بسوں میں نہ گھسیڑتے یا پرائیویٹ ٹیکسیوں کے رحم و کرم پر نہ چھوڑتے جو اپنے من مانے کرایوں سے ان کا خون نچوڑتے ہیں یہ جو بینکوں والے لیزleaseپر گاڑیاں دیتے ہیں یہ عام آدمی کے مفاد میں اس لئے نہیں ہے کہ اس کو ہر ماہ ایک بھاری بھر کم قسط ادا کر کے بینک کا قرضہ اتارنا پڑتا ہے اور ویسے بھی ہماری سڑکیں اتنی چوڑی اور زیادہ نہیں ہیں کہ وہ بھاری ٹریفک کا مزید بوجھ برداشت کر سکیں۔آرمی چیف نے اگلے روز علمائے کرام اور مشائخ سے اپنے خطاب میں بڑے پتے کی بات کی ہے کہ عراق‘لیبیا اور شام کا انجام سب کے سامنے ہے جس سے ہم سب کا سبق لینا ضروری ہے کہ جس ملک میں ریاستی ادارے کو کمزور کر دیا جائے اس کا پھر کیا حشر نشرہوتا ہے‘ وہ ذرا ان تین ممالک کے عوام سے پوچھیں کہ ریاست کی کتنی زیادہ اہمیت ہوتی ہے؟ان ابتدائی کلمات کے بعد قیام پاکستان کے فورا ًبعد جو جنگ کشمیر ہوئی تھی اس کے بارے میں بعض حقائق آ شکارا کر دئیے جائیں تو یہ ایک اچھی بات ہو گی‘ یوں تو کشمیر کی جنگ میں سارے”صوبہ سرحد“ سے تمام اقوام کے رضا کار گئے تھے‘پر ان میں جنوبی وزیرستان کے وزیر محسود قبائل کی تعداد زیادہ تھی‘ اس وقت کے صوبہ سرحد کے گورنر سر جارج کننگھمنے اپنی ذاتی ڈائری میں ان کی تعداد 7000 لکھی ہے ان کے علاوہ غلجئی اقوام کا بھی ذکر ہے ویسے تو اس جنگ میں کارہائے نمایاں ادا کرنے والے بہت دعویدار سامنے آئے اور سرینگر پہنچنے کی کہانیاں سنانے والے کئی ایک آج بھی موجود ہیں جو یہ افسوس کرتے ہیں کہ سازش کے تحت کی گئی جنگ بندی سیز فائر کی وجہ سے انہیں واپس بلا لیا گیا تھا‘ سرکاری دستاویزات کے ریکارڈ میں جن لشکروں کا ذکر کیا گیا ہے ان میں سب سے زیادہ تذکرہ پیر آف وانا محمد یوسف گیلانی کا ہے ان کے علاوہ کیپٹن میر بادشاہ اور ملک گلاب محسود کا ذکر بھی آتا ہے جن کے لشکر آ خری وقت تک کشمیر میں ڈٹے رہے۔
‘ پیر محمد یوسف گیلانی کی ذاتی نگرانی میں جانے والا لشکر ڈوگرا افواج کی سخت مزاحمت کے باوجود بتدریج آگے بڑھتا گیا‘ میجر جنرل اکبر خان نے اپنی کتاب ریڈرز ان کشمیر میں ایک محسود خونے خان محسود کا ذکر ان الفاظ میں کیاہے‘ اوڑی سیکٹر میں بارہ مولا سے کچھ فاصلے پرایک پل کو ہندوستانی فوج کی پیش قدمی روکنے کے لئے اڑادیا گیا تھا اس پر متعین دستوں کو کمک بھیجنا ضروری ہو گیا تھا کہ وہ پیش قدمی کو زیادہ سے زیادہ دیر تک روک سکیں اس موقع پر خونے خان اپنے انیس قبائلیوں کو ساتھ لے کر رضاکارانہ طور پر اس مہم پر گیا اور کامیابی سے وہاں پہنچا اور ان دستوں کے ساتھ واپس ہوا‘جنرل اکبر خان نے محسود قبائل کے فن حرب اور ایکشن کی تعریف کرتے لکھا کہ ان کا سارا ایکشن درسی کتابوں کے عین مطابق تھا‘ جس وصف کی ٹریننگ ہم فوج کو سالوں سے دے رہے ہیں وہ وصف ان کی فطرت میں شامل ہے انہوں نے ملک گلاب خان کو بلند حوصلہ اور با اعتماد لکھا یہاں پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ وانا کے پیر محمد یوسف گیلانی ملک کے پہلے عالم اور روحانی پیشوا تھے‘جنہوں نے کشمیر کی اس جنگ کے لئے فتویٰ جاری کیا تھا جس پر سارے قبائل اٹھ کھڑے ہوئے تھے‘ سرکاری دستاویزات میں جنگ کشمیر میں پیر آ ف وانا کے برادر نسبتی درب خان کا بھی ذکر آ تا ہے ان کا تعلق پیران موہڑہ شریف سے تھا‘ بعد میں بازیاب کی گئی ہندو عورتوں کو باحفاظت پنڈی میں فوجی ہیڈکوارٹر تک پہنچانے کا کام بھی انہی کی سربراہی میں سر انجام پایا تھا۔