کھٹارہ گاڑیوں کیخلاف کریک ڈاؤن

پرائیویٹ سکولوں کیکھٹارہ گاڑیوں کے خلاف پولیس کے کریک ڈاؤن کی خبر پڑھ کر ہمیں خیال آیا کہ یہ کریک ڈاؤن صرف پرائیویٹ سکولوں کی گاڑیوں تک ہی آ خر محدود کیوں کیا جا رہا ہے کیا سڑکوں پر جو دوسری موٹر کاریں‘ ویگنیں‘ٹرک اور بسیں آپ کو دوڑتی نظر آ تی ہیں‘ ان کے پاس فٹنس سرٹیفیکٹس موجود ہیں کیا متعلقہ پولیس کسی میکنزم کے تحت ایک خاص مدت کے بعد تمام گاڑیوں کے ہر پرزے کو چیک کرنے کے بعد اسے فٹنس سرٹیفیکٹس جاری کر رہی ہے اور اگر نہیں کر رہی تو کیا وجہ ہے اور کیا متعلقہ صوبائی وزیر کا یہ فرض نہیں بنتا کہ وہ اسمبلی کے فلور پر ہر تین ماہ بعد اعدادوشمار پیش کریں کہ گزشتہ تین ماہ کے عرصے میں چیکنگ کے دوران کتنی گاڑیاں مکینکلی ان فٹ قرار دی گئی ہیں  اور پھر ان  کے مالکان کو کیا اور کتنی سزا دی گئی ہے؟ اس معاملے میں اگر پولیس نے سختی سے کام نہ لیا  تو ٹریفک حادثات میں بے گناہ لوگ لقمہ اجل بنتے رہیں گے‘ اس بات میں تو کوئی دو آ راء ہو ہی نہیں سکتیں کہ سڑکوں پر صرف وہی گاڑیاں چلنی چاہئیں جو ہر لحاظ سے مکینکلی فٹ ہوں اور اس مقصد کے واسطے ان کی فٹنس چیک کرنے کے لئے ایک مخصوص مدت کے بعد ان کا معائنہ ضروری ہے پر اس قسم کی چیکنگ کا اطلاق ہر قسم کی گاڑی پرہو کیونکہ تجربہ یہ بتاتا ہے کہ روڈ پرہونے والے حادثات کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ یا تو گاڑی کے ٹائر پھٹ جاتے ہیں یا اس کا ٹائی راڈ کھل جاتا ہے اور یا اس کی بریک فیل ہو جاتی ہے۔ آج کل عوارض قلب اور کینسر سے ہر سال اتنے لوگ نہیں ہلاک ہو رہے جتنے روڈ کے حادثات سے ہو رہے ہیں لہٰذا اس طرف ارباب اقتدار کو فوری توجہ دینا ضروری ہے۔کیاہمارے مختلف قومی اداروں میں کام کرنے والے اہلکاروں کو نظر نہیں آ رہا کہ سوشل میڈیا مختلف قسم کی وڈیوز کے ذریعے معاشرے میں کتنی فحاشی اور گندگی پھیلا رہا ہے‘ کیا ان کا ضمیر ان کو اجازت دیتا ہے کہ وہ ان اخلاق باختہ پروگراموں کو اپنے گھر والوں کے ساتھ اکھٹا بیٹھ کر دیکھ سکیں‘ وطن عزیز میں جنسی جرائم کے فروغ میں اس قسم کے اخلاق سوز وڈیوزکا براہ راست ہاتھ ہے اور اگر اس کافوری تدارک نہ کیا گیا تو پانی ہمارے سر پر سے گزر جائے گا۔ہماری پولیس ہماری انتظامیہ اور ہماری عدلیہ کے ججوں کو یکجا ہو کر اس ضمن آپس میں کوارڈی نیشن کے ساتھ ایسے اقدامات اٹھانے ہوں گے کہ اس لعنت سے قوم کی نئی نسل بے راہ روی کا شکارہونے سے بچ سکے کیونکہ جس کو دیکھو اس کے ہاتھ میں موبائل ہے اسے کھانے پینے‘کھیلنے سونے اور آ رام کرنے کی پرواہ نہیں اس کی صبح بھی موبائل سکرین دیکھنے سے ہو رہی ہے اور رات بھی‘ بلا شبہ والدین بھی اس صورت حال کے کافی حد تک ذمہ دار ہیں‘ لگتا یہ ہے کہ نئی نسل اب والدین کے ہاتھوں سے نکل چکی ہے۔ ارباب اقتدار نے بھی اس معاملے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا اور سوشل میڈیا کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے اور بلا روک ٹوک اس پر ایسی وڈیوز دکھائی جا رہی ہیں‘ یہ جو موبائل کا نشہ ہے یہ بھی ہیروئن یا آئس کے نشے کی طرح ہے جس کو ایک مرتبہ لگ گیا وہ دین اور دنیا دونوں سے گیا‘ان چند ابتدائی کلمات کے بعد14 اگست کے حوالے سے وطن کی آزادی کاکچھ ذکربے جا نہ ہو گا‘ ڈیرہ اسماعیل خان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ بابائے قوم نے پاکستان بن جانے کے بعد بطور گورنر جنرل جو چند دورے کئے ان میں ڈیرہ اسماعیل خان شامل تھا اور ایک طرح سے وہ تحریک پاکستان میں ڈیرہ کے ادا کردہ کردار کا اعتراف تھا،اب جب کہ ڈیرہ اسماعیل خان کا ذکر چل نکلا ہے تو یہ بات بجاہو گی کہ سردار اورنگزیب خان گنڈا پور کا ذکر بھی کیا جائے‘ پیر علی محمد راشدی نے اپنی مشہور کتاب روداد چمن میں لکھا ہے کہ”صوبہ سرحد“ میں مرحوم سردار اورنگزیب خان نے اس وقت مسلم لیگ اور پاکستان کے حق میں جہاد کیا جب ان کا نام لینے والا کوئی شخص وہاں نظر نہیں آتا تھا۔

‘مجھے خود وہاں ابتدائی زمانے میں بھیجا گیا تھا جو کچھ میں نے دیکھا وہ یہ تھا کہ اورنگزیب تنہا اپنی چھوٹی سی مورس موٹر جس کا مولانا شوکت علی مرحوم نے ابابیل نام رکھا تھا‘تحریک کو بڑھانے کے لئے صوبے بھر میں دوڑ رہے تھے مگر پاکستان بن جانے کے بعد اور قائد کی رحلت کے بعد اسی اورنگزیب کو پیچھے دھکیل دیا گیا دل برداشتگی کے عالم میں انہوں نے اپنے آخری ایام صوبے سے باہر لائل پور میں اپنی آ بائی زمینوں میں ایک چھوٹے سے مکان میں گزارے اور وہیں دفن ہوئے وہ پشاور میں اپنا ذاتی مکان نہ بنا سکے ڈیرہ اسماعیل خان کا یہ خاندانی رئیس اپنی آبائی زمینوں میں ایک مرلے کا اضافہ کئے بغیر خاموشی سے دار فانی سے ایک حرف شکایت کہے یا لکھے چلا گیا۔