موسم کا بدلتا رنگ

آج کل شامیں اور راتیں خنک ہو چلی ہیں جو اس بات کی غماز ہیں کہ بھادوں کی آمد آمد ہے جب دن میں بلا شبہ سخت دہوپ تو ہوتی ہے پر سورج کے غرو ب ہونے کے بعد شامیں سہانی ہو جاتی ہیں‘ساون اب دو تین دنوں کاہی مہمان ٹھہرا‘ اب وہ ایک برس بعد دوبارہ ظہور پذیر ہوگا اور بقول شاعر 
جب اگلے سال یہی وقت اآرہاہو گا
 یہ کون جانتا ہے کون کس جگہ ہوگا 
 چونک یوم آزادی آن پہنچا ہے‘بہتر ہوگا کہ اس سے جڑی یادوں کے  ذکر  سے آج کے کالم کا پیٹ بھرا جائے‘ پر اس سے پیشتر چند اہم قومی اور عالمی معاملات کا ذکر بھی بے جا نہ ہوگا۔امریکہ نے اسرائیل کے واسطے اگلے روز جو تین ارب ڈالرزکی امداد کی منظوری دی ہے‘ وہ کوئی حیرت کی بات نہیں‘ایک دنیا جانتی ہے کہ امریکہ جس طرح تائیوان کی چین کے خلاف اور یوکرائن کی روس کے خلاف ہلہ شیری کر رہا ہے بالکل اسی طرح مشرق وسطیٰ میں  وہ پس پردہ مسلمانوں کے خلاف اسرائیل کی  سیاسی‘مالی  اور عسکری امداد جاری رکھے ہوئے ہے۔ خدا کرے کہ پاکستان ایران اور افغانستان میں اس سوچ کے حامل افراد  ایوان اقتدار اور حزب اختلاف میں پیدا ہو جائیں  جو اس بات پر یقین رکھتے ہوں کہ اس خطے میں دیرپا امن اسی صورت میں قائم کیا جا سکتا ہے‘جب یہ تینوں ممالک  آپس میں یکجا ہو کر ایک کنفیڈریشن کی شکل اختیار کر لیں‘ اس سے جہاں ایک طرف ان تینوں ممالک کے باشندوں کی مالی اور معاشی حالت بہتر ہو گی وہاں کسی بھی سپر پاور کو اس خطے میں اپنے سیاسی عزائم کی تکمیل کے لئے مداخلت کرنے کا موقع نہیں  مل سکے گا‘یہ کوہی انہونی بات بھی نہیں ہو گی بس اس کے لئے غیبی امداد کی ضرورت ہے کہ قدرت ان تینوں ممالک کو  ایسی قیادت میسر کر دے جو ان کی کنفیڈریشن کے نظریہ پر ایمان رکھتی ہواور کالم کی آ خری چند سطور میں بر صغیر کی تاریخ سے جڑی ہوئی چند باتیں 19ویں صدی کی آ خری دہائی میں سرحدی علاقہ جات کے حالات کافی پریشان کن رہے‘ جس کی بڑی وجہ  فرنگیوں کی فارورڈ پالیسی اور افغانستان کے امیر کی جوابی منصوبہ بندی اور ان علاقوں میں عمل دخل تھا‘فرنگی حکومت ان آ زاد قبائل کو جنہیں اس سے پہلے  اس نے اپنی سرحد پر بفر بنا کر اپنی دفاعی لائن کو مضبوط بنایا تھا اب ان پر زیادہ سے زیادہ تسلط قائم کرنا چاہتی تھی‘  لارڈ کرزن نے 1899ء میں وائسرائے کا عہدہ سنبھالا تو انہوں نے شمال مغربی سرحد کی طرف خصوصی توجہ دینی شروع کی‘ اس نے  یہ فیصلہ کیا کہ پانچ قبائلی ایجنسیوں  خیبر‘ مالا کنڈ‘ شمالی اور جنوبی وزیرستان پر مشتمل ایک علیحدہ صوبہ بنایا جائے۔آ خر کار 1901ء میں اسے علیحدہ صوبہ بنا دیا گیا‘ صوبے کا سربراہ ایک چیف کمشنر مقرر کیا گیا‘ اس نئے صوبے کو شمال مغربی صوبے کا نام دیا گیا،کرزن پالیسی کے مطابق ان قبائلی علاقوں سے باقاعدہ انگریز فوج کا انخلاء عمل میں لایا گیا اس سلسلے میں فرنگیوں کا اگلا قدم وزیرستان میں ملیشیا کا قیام تھا۔1895 ء میں صوبے میں دو کمشنریاں بنائی گئیں‘ ان میں سے ایک پشاور اور دوسری ڈیرہ اسماعیل خان میں تھی‘اس کے ساتھ ہی ساتھ قبائلی علاقے میں امن عامہ کو قائم رکھنے اور ڈیورنڈ لائن پر نظر رکھنے کے واسطے ملیشیا اور فرانٹیئر کانسٹیبلری کا وجود عمل میں لایا گیا‘ یہ بانی پاکستان کی سیاسی بصیرت اور دور اندیشی تھی کہ 14 اگست 1947 کے بعد بھی انہوں نے خیبر پختونخوا  سے ملحقہ قبائلی علاقے کے انتظامی نظام کو نہ چھیڑا اور جو بھی معاہدے فرنگیوں  نے قبائلی مشران سے ان کے علاقے کے معمولات زندگی چلانے کیلئے وضع کئے تھے ان کو جوں کا توں رہنے دیا۔