آج یوم آزادی ہے 1971ء میں مملکت خداد پاکستان کے دشمنوں نے ایک سازش کے تحت اسے توڑا اور پھر رب کریم نے اس ملک کے توڑنے والوں کا اس سال جو حشر نشر کیا وہ بھی چشم فلک نے دیکھا....دشمنان پاکستان کے واسطے یہی کہا جا سکتا ہے کہ یکھو مجھے جو دیدہ عبرت نگاہ ہو۔‘ خدا خدا کر کے ساون کا مہینہ اختتام پذیر تو ہوا‘پر سیلابی بارشوں کی تباہ کاریاں کرنے کے بعد اب بھادوں کی کڑاکے دار دھوپ کا مہینہ ہے‘پر کم از کم اس ماہ میں شامیں اور راتیں ایسی ہوتی ہیں کہ پنکھوں اور ائر کنڈیشنر کے بغیر رات کو لوگ آرام سے سو تو سکتے ہیں اور بجلی کے بھاری بھر بل میں بھی اگلے ماہ کافی کمی تو ہوگی۔ محکمہ موسمیات کی پیشن گوئیاں امسال سو فیصد درست ثابت ہوئیں‘ سائنس نے اب اس قدر ترقی کی ہے کہ اب وہ زمانہ نہیں رہا جب اس محکمہ کی اکثر پیشنگوئیاں غلط ثابت ہوا کرتی تھیں۔ان جملہ ہاے معترضہ کے بعد اہم عالمی اور قومی واقعات کا ایک ہلکا سا جائزہ بے جا نہ ہو گا‘۔وزیراعظم کا یہ بیان اس ملک کے تمام لوگوں کے دل کی آواز ہے کہ غزہ مظالم سے جشن آزادی کی خوشیاں ماند پڑ گئی ہیں‘ دنیا فلسطینیوں کی نسل کشی کا تماشا دیکھ رہی ہے اسرائیلی جارحیت پر صرف لفظی مذمت‘ آ گے کچھ نہیں کیا جاتا۔ ادھر امریکہ کے صدارتی انتخابات کے بارے میں اس خیال کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ اگر ٹرمپ صدر بنتے ہیں تو لاکھوں غیر قانونی تارکین وطن کو ڈی پورٹ کریں گے‘ اسی وجہ سے امریکہ میں بسنے والے لاکھوں تارکین اس وقت سخت پریشانی میں مبتلا بتلائے جا رہے ہیں۔ ارشد ندیم کی کامیابی پر وطن عزیز کے عام آدمی نے جس خوشی اور مسرت کا مظاہرہ کیا وہ دیدنی تھا‘کھیلوں کے حلقوں سے تعلق رکھنے والے حلقوں کا مطالبہ ہے کہ کھیلوں کے سپانسرز اور حکومت کو صرف اور صرف کرکٹ کی ہی حوصلہ افزائی نہیں کرنی چاہیے اس ضمن میں ہاکی‘فٹ بال سکواش کے علاوہ ایتھیلیٹکسز athletics کے تمام انفرادی گیمز ایونٹس جیسا کے ریسلنگ‘ تیراکی‘مختلف فاصلوں کی دوڑ‘جیساکہ 100میٹرز کی دوڑ وغیرہ وغیرہ کی بھی سرپرستی کرنا چاہیے اور ان کی بھی اسی پیمانے پر فنڈنگ کرنا ضروری ہے جس طرح کرکٹ کی کی جارہی ہے‘ کھیلوں کے شائقین کو یاد ہوگا کہ 1958ء میں ٹوکیو میں ہونے والے ایشیائی اولمپکس میں پاکستان کے عبد الخالق نے 100میٹر کی دوڑ میں سونے کا تمغہ جیتا تھا‘کئی انفرادی گیمز میں بھی یہ ملک ٹیلنٹ سے بھرپور جوانوں سے بھرا پڑا ہے‘ بس اگر کسی چیز کی کمی ہے تو وہ صرف سپانسرز اور حکومت کی طرف سے ان کی مناسب سرپرستی کی۔اس وقتسیاسی طور پر بھی بہتر حکمت عملی سے آج دنیا میں اثرو نفوذ کے لحاظ سے بھی چین کا غلبہ ہے د‘نیا پر اب مغرب کی نہیں بلکہ مشرق کی حاکمیت آ نے والی ہے‘پاکستان کے تمام ووٹرز کو اس خبر کی طرف خاص دھیان دینا چاہئے کہ امریکہ کے نائب صدر کے عہدے کے ایک امیدوار ٹم والز،کے پاس ذاتی مکان نہیں ہے اور انہوں نے نہ ہی کسی بزنس میں انویسٹمنٹ کر رکھی ہے‘بطور گورنر ان کے پاس اربوں ڈالر کی منظوری دینے کا اختیار تھا‘پر وہ کئی پاکستانی ارکان قومی اور صوبائی اسمبلی سے بھی غریب ہیں‘ پاکستان میں بھی غلام اسحاق خان جیسے حکمران گزرے ہیں کہ جنہوں نے اپنے دور اقتدار میں ایک پیسہ بھی نہ بنایا۔ جتنے منہ اتنی باتیں بنگلہ دیش میں حالیہ انتشار کے بارے میں ایک بیانیہ یہ بھی ہے کہ 53سال سے بھارت کی بنگلہ دیش میں اندر تک رسائی حسینہ واجد کے چین کے ساتھ بڑھتے ہوئے تجارتی تعلقات اور امریکہ کی شد و مد کے ساتھ سی پیک روڈ اور بیلٹ منصوبوں کی مخالفت اس حالیہ مبینہ انقلاب میں معاون ثابت ہوئے ہیں‘کہیں ایسا تو نہیں کہ جو تحریک آ سام تریپورہ میزو رام سکم میں چل رہی ہے اور بھارت کو اس کا مغربی بنگال میں بھی پھیلنے کا خدشہ ہے۔
‘ اس لئے اس نے اپنی فوج کو الرٹ ر ہنے کا حکم بھی دے دیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔