انتہا پسندی سے اجتناب 

انتہا پسندی بری چیز ہے‘ اس کا مظاہرہ  زندگی کے کسی بھی شعبے میں نہیں کرنا چاہیے  قوم کو میانہ روی کی تعلیم و تربیت دینے کی ضرورت ہے۔اس جملہ معترضہ کے بعد آج کے کالم کا آ غاز ہم درج ذیل پرمغز شہہ پاروں سے کر رہے ہیں جن کا  ہر قاری کو ذہن نشین کرنا بہت ضروری ہے‘سب سے بھاری گناہ وہ ہے جس کا مرتکب ہونے والا سبق سمجھے۔ بیچارہ آ دمی کتنا بے بس ہے‘موت اس سے نہاں  بیماریاں اس سے پوشیدہ اور اس کے اعمال محفوظ ہیں‘ مچھر کے کاٹنے سے چیخ اٹھتا ہے اور مر جاتا ہے اور پسنہ اس میں بدبو پیدا کر دیتا ہے۔ جسے اپنی آ برو عزیز ہو وہ لڑائی جھگڑے سے کنارہ کش رہے۔سب سے بڑا عیب یہ ہے کہ اس عیب کو برا کہو جس کے مانند خود تمہارے اندر موجود ہے۔ سب سے بڑی دولت مندی یہ ہے کہ دوسروں کے ہاتھ میں جو ہے اس کی آ س نہ رکھی جائے۔وہ عمر کہ جس کے بعد خدا آ دمی کے عذر قبول نہیں کرتا‘ ساٹھ برس کی ہے‘اولاد کے مرنے پر آ دمی کو نیند آ جاتی ہے مگر مال کے چھن جانے پر اسے نیند نہیں آ تی۔ حسد کی کمی بدن کی تندرستی کا سبب ہے۔ دنیا کی تلخی آ خرت کی  خوشگواری ہے اور دنیا کی خوشگواری آ خرت کی تلخی ہے۔ طمع کرنے والا ذلت کی زنجیروں میں گرفتار رہتا ہے۔ تو نے اپنی غذا سے جو زیادہ کمایا ہے اس میں دوسرے کا خزانچی ہے‘چل چلاؤ قریب ہے۔ لالچ ہمیشہ کی غلامی ہے۔جو اقتدار حاصل کر لیتا ہے  جانبداری کرنے لگتا ہے۔ ہر آ نے والے کے لئے پلٹنا ہے اور جب پلٹ گیا تو جیسے کبھی تھا ہی نہیں۔ انسان اپنی زبان کے نیچے چھپا ہوا ہے۔ جو میانہ روی اختیار کرتا ہے وہ کبھی محتاج نہیں ہوتا۔شروع  سردی میں سردی سے احتیاط کرو اور آ خر میں اس کا خیر مقدم‘ کیونکہ سردی جسموں میں وہی کرتی ہے جو درختوں  میں کرتی ہے کہ ابتدا میں درختوں کو جھلس دیتی ہے اور انتہا  میں سر سبز و شاداب کرتی ہے۔دوست اس وقت تک دوست نہیں سمجھا جاتا جب تک وہ اپنے بھائی کی تین موقعوں پر نگہداشت نہ کرے‘مصیبت کے وقت اس کی پشت اور اس کے مرنے کے بعد غم آ دھا بڑھاپا ہے۔


 اور اب ذکر کرتے ہیں اہم  تازہ ترین قومی اور عالمی  واقعات کا۔ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کا یہ حکم قابل ستائش ہے کہ جس کے تحت  شہداء کے لواحقین کو مفت پلاٹس دئیے جائیں گے  پاکستان کا بھارت میں جوہری تابکاری مواد کی چوری اور فروخت پر اظہار تشویش بجا ہے  عالمی برادری بھارت سے اس ضمن میں فوری جواب طلبی کرے کیونکہ ایسامواد غلط ہاتھوں میں جانا انتہاہی خطر ناک ہے۔ہمارا کوئی بھی ٹی وی چینل یوروگائے Uruguayکے اس سابقہ صدر جوزے  موزیکہ کے بارے میں وہ دستاویزی فلم کیوں نہیں بناتا جو سوشل میڈیا پر  موجود ہے‘ اس میں بتلایا گیا ہے کہ انہوں نے اپنی صدارت کے دوران ایک  درویشانہ زندگی بسر کی جو ہمارے ارباب اقتدار کے لئے مشعل راہ ہونی چاہیے۔شاید ہی کوئی ایسا دن ہوتا ہو جب حکومتی ارکان  اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے سیاسی رہنما اور عدلیہ کے جج صاحبان سوشل میڈیا پر دکھائے جانے والے پروگراموں پر اپنے عدم اطمینان کا اظہار نہ کرتے ہوں‘پر حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ اجتماعی کوشش کر کے اسے کسی سنسرشپ کے تابع کیوں نہیں کرتے تاکہ نہ کوئی ڈیجٹل دہشت گردی کر سکے اور نہ کوئی  واہیات اور مخرب الاخلاق پروگرام پیش کیا جا سکے۔