ٹریفک قواعد پر عملدرآمدناگزیر

ملک کے اندر موٹر سائیکلوں کی بھر مار ہے جو روڈ حادثات کی ایک بڑی وجہ قرار دی جا سکتی ہے‘ننانوے فیصد افرادہیلمٹ کے بغیر موٹر سائیکل چلاتے آپ کو نظر آئینگے‘ موٹر سائیکل کی سواری کو بجا طور پر    خطرے سے بھرپور سواری کہا گیا ہے‘شاذ ہی کوئی ایسا موثر سائیکل سوارہو کہ جو کسی روڈ حادثے کا شکار نہ ہوا ہو‘ اور سر پر چوٹ کھانے والے تو شاذہی زندہ بچتے ہیں‘ ہیلمٹ کا استعمال ان کو موت کے منہ میں جانے سے بچا سکتا ہے‘ ہم نے دیکھا ہے کہ اکثر لوگ ہیلمٹ نہیں پہنتے‘پولیس کو جل دینے کیلئے  جب بھی پولیس کا کانسٹیبل ان کو سڑک پر نظرآئے وہ اپنے ہیلمٹ کو سر پر پہن لیتے ہیں جو انہوں نے اپنی موٹر سائیکل کے ہینڈل کے ساتھ خانہ پری اور نمائش کیلئے لٹکایا ہوتا ہے‘تجربے میں آ یا ہے کہ موٹر سائیکل کے حادثات کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ والدین اس بات کا بالکل خیال نہیں رکھتے کہ کیا ان کا بچہ گھر سے موٹر سائیکل لے جاتے وقت ہیلمٹ پہن کر نکلا ہے یا نہیں اور کیا اس کے پاس ڈرائیونگ لائسنس ہے بھی یا نہیں‘اس لئے تجویز یہ کیا جاتا ہے کہ ایسا قانون پاس کر دیا جائے کہ اگر کوئی بھی موٹر سائیکل سوار بغیر ہیلمٹ کے سڑک پر پایا جائے تو اس کے خلاف پرچہ دیتے وقت پولیس اس کے والد یا سرپرست کے خلاف بھی پرچہ دے اور موٹر سائیکل کو بحق سرکار ضبط بھی کر لیا جائے‘شاید ایسا کرنے سے موٹر سائیکل کے حادثات کم ہو جائیں‘ کیونکہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔ ون ویلنگ سے بھی کئی موٹر سائیکل سوار لقمہ اجل ہو رہے ہیں لہٰذا اس میں ملوث افراد کے خلاف بھی انتہائی سخت قانونی کاروائی کرنا ضروری ہو گی اور ا ب تو یہ بھی ثابت ہو چلا ہے کہ موٹر سائیکل کا دھواں ماحول کو بھی آ لودہ کر رہا ہے‘سو ان تمام حقائق کو مد نظر رکھ کر ارباب اقتدار کو ضروری اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ ان چند ابتدائی کلمات کے بعد درج ذیل اہم نوعیت کے معاملات پر ایک نظر ڈالنا بے جا نہ ہو گا۔ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ سلیمان نے اپنی زندگی کو خطرے کے بارے میں جو بیان دیا ہے‘وہ غور طلب ہے۔خدا لگتی یہ ہے کہ اس خطرے کی کئی وجوہات ہیں‘ پہلی بات تو یہ ہے کہ انہوں نے سعودی عرب کو ایک مارڈن سٹیٹ بنا نے کے لئے  بڑی عجلت کے ساتھ زندگی کے ہر شعبے میں بغیر مناسب ہوم ورک کئے اپنے ملک کو جدیدیت کی جس راہ پر ڈال دیا ہے وہ سعودی عرب کے اس  طبقے کو ایک آنکھ نہیں بھاتی جس کی ایوان اقتدار پر بڑی مضبوط گرفت ہے‘ اس طبقے کے زیر اثر شاہی خاندان کے کئی شہزادے اور ان کے حواری کبھی بھی نہیں  چاہیں گے کہ شہزادہ سلیمان اپنے اس مشن میں کامیاب ہوں‘ سعودی ولی عہد پر یہ بھی الزام ہے کہ وہ امریکہ کی حد درجہ حمایت کر رہے ہیں‘ اسرائیل کے بارے میں بھی مبینہ طور پر وہ اپنے دل میں جو نرم گوشہ رکھتے ہیں اس پر بھی سعودی عرب کے ایوان اقتدار میں موجود مضبوط لابی خفا ہے‘سعودی عرب کا شاہی خاندان ماضی میں بھی محلاتی سازشوں کا شکار رہا ہے‘ سعودی ولی عہد کا امریکہ کے ارباب بست و کشاد کو مخاطب ہو کر  یہ کہنا بڑا معنی خیز ہے کہ ماضی میں مصر کے ایک  رہنما انور سادات کو اس بات کی پاداش میں قتل کر دیا گیا تھا کہ وہ اسرائیل کے لئے اپنے دل میں نرم گوشہ رکھتا تھا۔ امریکہ نے اگلے روز اسرائیل کے لئے 20 ارب ڈالر کی مالیت کا جو جنگی سامان منظور کیا ہے وہ اس حقیقت کا غماز ہے کہ وہ اسلامی دنیا کو صفر میں ضرب دیتا ہے اور مشرق وسطیٰ  میں اسرائیل  نے نہتے فلسطینیوں پر  جو ظلم ڈھا رکھا ہے‘ انکی اس کے نزدیک ذرا بھر بھی اہمیت نہیں ہے‘ سعودی ولی عہد کی جان  کو بلا شبہ اپنے ملک کے اندرایسی سوچ رکھنے والوں سے بھی خطرہ ہے اور ان طبقات سے بھی جو ان کی اسرائیل کے بارے میں مفاہمت  کی پالیسی سے اتفاق نہیں رکھتے اور اب کالم کے اختتام میں پشاور کے ایک عظیم سپوت کا ذکر ہو جائے جنہوں نے پاکستان کی ہاکی کے فروغ کے لئے بہت کام کیا‘ خیبر پختونخوا خصوصاً پشاور میں ہاکی کے فروغ کے لئے لالہ ایوب کی خدمات ناقابل فروش ہیں‘ بہت کم لوگوں کو پتہ ہے کہ پاکستان کی جس ہاکی ٹیم نے 1960ء میں پہلی مرتبہ روم میں منعقدہ ورلڈ اولمپکس میں گولڈ میڈل جیتا تھا اس کی سلیکشن اور ٹریننگ میں لالہ ایوب کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔

‘ لالہ ایوب پشاور صدر میں گرین ہوٹل کے نام سے ایک ھوٹل چلایا کرتے تھے جو آج بھی موجود ہے‘ لالہ ایوب چونکہ ایک مخلص سماجی کارکن بھی تھے‘ ان کا  ہوٹل ہر وقت ان  ضرورت  مندوں جن کے مسائل سرکاری دفاتر میں پھنسے ہوا کرتے تھے‘آماجگاہ بنا رہتا تھا اور لالہ ایوب ان کی مدد کیلئے ہر وقت کمر بستہ رہتے تھے‘ وہ بطور عوامی لیڈر پشاور صدر میں کافی مقبول تھے‘ ان کا ہوٹل ہر وقت ہاکی کے کھلاڑیوں اور شیدائیوں سے بھرا پڑا رہتا تھا‘لالہ ایوب ہاکی کے انٹرنیشل گریڈ ون امپائر بھی تھے اور انہوں نے ایک سال تک بطور انٹرنیشنل کوچ سپین کی ہاکی ٹیم کی کوچنگ بھی کی تھی‘جس کے واسطے سپین کی ہاکی فیڈریشن نے حکومت پاکستان سے ان کی خدمات مستعار لی تھیں‘ جب بھی اس ملک میں ہاکی کی تاریخ لکھی جائے گی لالہ ایوب کی خدمات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کا نام سنہرے حروف میں لکھا جائے گا۔