عالمی مسائل اور اقوام متحدہ کی ذمہ داری

افواج پاکستان ملک کے ماتھے کا جھومر ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلامی دنیا میں اگر کوئی ایسی فوج ہے کہ جو فرقہ واریت ‘مسلکی تعصب اور لسانیت سے پاک ہے تو وہ وطن عزیز کی فوج ہے‘ جو ان علتوں سے دور ہے‘ اس کی رگ و پے میں صرف اور صرف پاکستانیت رچی بسی ہے اور یہ ایسا وصف ہے جو ہمارے دشمنوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتا اور اسے ختم کرنے کے واسطے ہمارے دشمنوں نے فوج کے اندر نہ صرف یہ کہ دراڑیں پیدا کرنے کی کوشش کی ‘اس کے خلاف جھوٹ اور سراسر دروغ بیانی کا ایک جامع سلسلہ شروع کر رکھا ہے اور وہ ہٹلر کے وزیر اطلاعات ڈاکٹر گوئبلز کے اس مقولے پر عمل پیرا ہیں کہ اتنا جھوٹ بولو اتنا جھوٹ بولو کہ اسے لوگ سچ سمجھنے لگیں‘ بے شک ہر انسان اور طبقے سے بشری غلطیاں سر زد ہوتی ہیں‘ہماری فوج بھی اس سے مبرا نہیں پر اس کا یہ مطلب نہیں کہ انہیں بڑھا چڑھا کر پورے ادارے کو بدنام کیا جائے تاکہ عوام کی نظروں میں اس کی وقعت کم ہو۔اب آتے ہیں چند تازہ ترین قومی اور عالمی خبروں کے ذکرکی طرف۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس 10 ستمبر سے شروع ہوگا‘یہ ایک ایسا موقع ہوتا ہے کہ جس میں تمام عالمی لیڈر ایک چھت کے نیچے اکھٹے ہو کر دنیا کو درپیش مختلف مسائل پر مغز ماری کر کے ان کے حل تلاش کرتے ہیں‘آج کل تو دنیا کا تقریباً ہر ملک موسمیاتی تبدیلی کا شکار ہے ‘جس کا حل کوئی بھی ملک تن تنہا نہیں نکال سکتا‘ اس کو حل کرنے کے واسطے ترقی یافتہ ممالک کو ترقی پذیر ممالک کی مالی مدد درکار ہو گی ۔ فلسطین کشمیر اور یوکرائن وہ مسائل ہیں کہ جن کو اقوام عالم کے لیڈروں کی توجہ کی ضرورت ہوگی ‘امید ہے اس موقع سے فائدہ اٹھا کر ہمارے سفارت کاروں نے ان مسائل کو خاطر خواہ انداز میں پیش کرنے کے لئے موثر ہوم ورک کیا ہوگا‘ اس وقت عالمی امن کو جن مسائل سے خطرہ لاحق ہے وہ امریکہ کی تائیوان کی مسلسل ہلہ شیری سے ہے‘ اسی طرح امریکہ جس طریقے سے روس کے خلاف یوکرائن کو جدید اسلحہ سے لیس کر رہا ہے اس سے بھی تیسری عالمگیر جنگ کے شعلے بھڑک سکتے ہیں‘ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اگلے ماہ ہو نے والے اجلاس میں ان مسائل کا سپر پاورز کو حل نکالنا ہو گا ۔یہ امر خوش آئند ہے کہ آج چین میں جو قیادت بر سر اقتدار ہے وہ جوش کی جگہ ہوش سے کام لے رہی ہے ورنہ اب تک تیسری عالمگیر جنگ کب کی چھڑ گئی ہوتی ۔ پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کی وطن واپسی کے مسئلے کو سنجیدگی سے حل کرنا ضروری ہے ‘کچھ عرصہ پہلے سرفراز بگٹی نے کہ جب وہ وزیر داخلہ تھے اس مقصد کے حصول کے لئے ایک ڈیڈ لائن مقرر کی تھی ‘پر بعد میں اس پر خاموشی اختیار کر لی گئی لہٰذا اس ضمن میں اب جب کبھی بھی ارباب اقتدار کوئی تاریخ مقرر کرتے ہیں تو عوام کو یقین نہیں آتا کہ اس پر عمل بھی ہوگا یا نہیں ۔بنگلہ دیش کے موجودہ حکمران یہ کہہ تو ضرور رہے ہیں کہ وہ بھارت سے مطالبہ کریں گے کہ شیخ حسینہ کو ان کے حوالے کیا جائے کہ ان کے خلاف اپنے عوام پر جبر و ظلم کرنے کے لاتعداد مقدمات ہیں ‘پر دیکھنا یہ ہے کہ بھارت ان کے مطالبے کو درخور اعتنا بھی سمجھتا ہے کہ نہیں کیونکہ شیخ حسینہ اور ان کے مرحوم والد اور ان کی سیاسی پارٹی ایک لمبے عرصے سے بھارت کی ڈگڈگی پر ناچتے آئے ہیں‘ بھارت ان کا احسان مند ہے‘ وہ کیسے اپنے محسنوں کے خلاف ایسا ایکشن لے سکتا ہے جو ان کے خلاف جاتا ہو ۔ اقوام متحدہ میں چین کے مندوب نے یہ کہہ تو دیا ہے کہ امریکہ اسرائیل پر دباﺅ ڈالے کہ وہ فلسطینیوں کا قتل عام بند کرے پر امریکہ کے صدر ان کی بات کو اس لئے نہیں مانیں گے کہ وہ امریکہ میں موجود مضبوط صہیونی لابی کے مرہون منت ہیں کہ جن کی حمایت کے بغیر وہ وہائٹ ہاﺅس میں رہ ہی نہیں سکتے ۔