آج کے کالم میں ہم ان چند حکمرانوں کا ہلکا سا ذکر کریں گے کہ ان کی طرح کے لیڈروں کی تقلید ہمارے وطن عزیز کے لیڈروں اور سیاستدانوں کو بھی کرنی چاہئے۔ لاطینی امریکہ کا ایک ملک ہے جس کا نام ہے‘یوروگوائے (Uruguay)ماضی قریب میں پانچ سال تک اس کا صدر ایک ایسا شخص رہا ہے جس کا نام تھاجوسے مو جیکہ (Jose mojika)اور جس کو غریب ترین صدر کہا جاتا تھا وہ اپنی تنخواہ اور پنشن کی نوے فیصد رقم ملک کے غریب باسیوں میں تقسیم کر دیا کرتا تھا اور ریٹائرمنٹ کے بعد ایک چھوٹے سے گھر میں اس نے اپنی زوجہ کے ساتھ زندگی گزاری کہ جس میں واٹر سپلائی کی سہولت بھی نہ تھی‘ اسے اکثر اپنی پرانی فوکس ویگن گاڑی چلاتے دیکھا جاتا وہ اکثر یہ کہتا کہ لوگ مجھے غریب ترین صدر کہہ کر پکارتے ہیں پر دراصل غریب وہ ہیں جو دولت پر سانپ بن کے بیٹھے ہیں اور ساری زندگی بے اطمینانی میں گزارتے ہیں اور اس طرح اسے ضائع کر دیتے ہیں‘س نے اپنے دور حکومت میں اپنے ملک سے بے روزگاری کا خاتمہ کر دیا تھا‘وہ بیماری کی
صورت میں ملک کے عام ہسپتال میں عام باسیوں کی طرح اپنا علاج کرواتا تھا اور مریضوں کی لائن میں کھڑا ہو کر ڈاکٹر سے اپنا معائنہ کرانے کیلئے اپنی باری کا انتظار کرتا‘ ایک مرتبہ اس نے حکومت سے ان کے استعمال کے لئے فراہم کئے جانے والے ایک جیٹ جہاز کو قبول کرنے کے بجائے بیمار اور فوری طبی امداد کے ضرورت مند اور مستحق افراد کی دیکھ بھال کے لئے ایک ہیلی کاپٹر خریدنے کا حکم دے دیا‘ آپ ایران کے سابق سربراہ امام خمینی‘ چین کے سابق حکمران ماو زے تنگ‘ کیوبا کے فیڈل کاسترو‘شمالی ویت نام کے ہن چن من‘جنوبی افریقہ کے نیلسن مینڈیلا اور تنزانیہ کے جولیس نیانارے کو بھی اسی کٹیگری کے لیڈرز کی فہرست میں شامل کر سکتے ہیں‘ ان سب لوگوں کا تعلق قرون اولیٰ سے نہ تھا ماضی قریب سے تھا اور خوش قسمت تھے وہ لوگ جن پر انہوں نے حکمرانی کی‘ جن رہنماوں کے نام ہم نے اوپر کی سطور میں ذکر کئے ہیں ان میں ایک قدر مشترک تھی اور وہ یہ کہ ان کے دلوں میں عام لوگوں کے لئے نرم گوشہ تھا وہ سرکاری پیسوں پر اللے تللے نہیں کرتے تھے‘ وہ اپنے ملک کے عام آ دمی کی طرح زندگی گزارتے تھے‘ ان کا رہن سہن اور بودوباش شاہانہ نہ تھا اور یہی وجہ تھی کہ وہ اپنے ملک کے لوگوں بلکہ دنیا کے تمام غریب لوگوں کے دلوں میں آج بھی بستے ہیں۔ہمارے ایک سفارت کار نے اپنی ایک کتاب میں لکھا کہ وہ جب شمالی ویتنام کے ایک سابق حکمران ہن چن من Hon chin Minhسے ان کے دفتر میں ملاقات کے واسطے گیا تو اس نے دیکھا کہ جو فرنیچر وہاں پڑا تھا وہ بانسوں کا بنا ہوا تھا‘ماوزے تنگ ایک مرتبہ جب ایک کارخانے گئے اور انہوں نے مزدوروں کو ننگے پاؤں کام کرتے دیکھا تو ان سے ننگے پاؤں ہونے کی وجہ پوچھی‘ انہیں جب یہ بتایا گیا کہ چونکہ ان کے پاس جوتے خریدنے کے پیسے نہیں اس لئے وہ ننگے پاؤں ہیں تو اسی وقت ماو زے تنگ نے قسم کھالی کہ وہ بھی اب اس وقت تک نیا جوتا نہیں خریدیں گے کہ جب تک چین کے مزدور اس قابل نہیں ہو جاتے کہ وہ جوتے خرید سکیں۔
چنانچہ ایک لمبے عرصے تک جب بھی ماو زے تنگ کا جوتا کہیں سے پھٹ جاتا تو اس کو موچی کے پاس سلوانے اور ٹانکے لگوانے کے واسطے بھجوا دیا جاتا البتہ یہ بات درست ہے کہ پاکستان کے قیام کے ابتدائی دنوں میں اس ملک نے لیاقت علی خان‘سردار نشتر اور سردار اورنگزیب گنڈہ پور جیسے لیڈر ضرور دیکھے ہیں کہ جن کی مالی دیانتداری کا تذکرہ کیا جاتا ہے‘ پر یہ وہ زمانہ تھا جب قائد اعظم بقید حیات تھے یا ان لیڈروں نے ان کے ساتھ کافی وقت گزاراتھا اور ان کی شخصیت اور کردار کی پرچھائیاں ان پر پڑی تھیں۔ ان ابتدائی سطور کے بعد چند تازہ ترین واقعات پر تبصرہ بجا ہوگا۔ سکواش کے سابق عالمی چیمپئن قمر زمان کے اس بیان سے شاید ہی کسی کو اختلاف ہو کہ سوشل میڈیا نے ملک کے نوجوان طبقے کو موبائل سیٹوں کے قریب اور جسمانی کھیلوں سے دور کر دیا ہے ‘ملک میں تیزی سے پھیلتی ہوئی شوگر کی بیماری اور عوارض قلب میں اضافہ قابل تشویش ہے‘ اس صورت حال کے لئے والدین بھی کافی حد تک ذمہ دار ہیں جنہوں نے چھوٹے چھوٹے بچوں کے ہاتھوں میں موبائل سیٹ تھما دئیے ہیں‘جن سے ان کی آنکھوں کی بینائی بھی بری طرح متاثر ہو رہی ہے اور صغیر سنی ہی میں انہوں نے چشمے لگا لئے ہیں۔ آج کے مخصوص عالمی مسائل اور ان میں پاکستان کے ممکنہ کردار کو مد نظر رکھتے ہوئے ضروری ہے کہ بعض ایسے ممالک ہیں کہ جن میں فارن آ فس کو اپنے بہترین کیرئر ڈپلومیٹس تعنیات کرنے چاہئیں‘ مثلاً چین‘روس‘افغانستان‘ترکی‘ ایران‘انگلستان‘امریکہ‘ عرب امارات اور بھارت۔ افغانستان اور ایران چونکہ ہم سے بارڈر شئیر کرتے ہیں اور آئے دن پاک افغان اور پاک ایران بارڈر پر کوئی نہ کوئی رولا اٹھتا ہے‘لہٰذا ان دو ممالک میں ہمیں ایسے سفارتکار تعنیات کرنے چا ہئیں کہ جو ان دونوں ممالک میں بسنے والے قبائل کے رسم و رواج ان کی ماں بولی اور رواجات سے کما حقہ بلد ہوں۔ تنگ آ مد بہ جنگ آ مد‘ ایران نے بھی افغانستان کے ساتھ اپنی سرحد پر باڑ لگانے کا فیصلہ کر لیا ہے‘ اس وقت ایران میں بھی پاکستان کی طرح افغانیوں کی ایک بڑی تعداد رہائش پذ یر ہے جو ایک محتاط اندازے کے مطابق 50 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔