کچے کے علاقے‘جرائم کی آماجگاہ

کچے کے علاقے بھلے وہ پنجاب میں ہوں یا سندھ میں‘ ڈاکوؤں کا راج ہے‘پولیس ان کے سامنے بے بس ہے‘اسی طرح ملک کے بڑے شہروں میں سڑیٹ کرائمز نے بھی زور پکڑا ہوا ہے‘سول انتظامیہ کو بہ امر مجبوری ڈاکو راج ختم کرنے کے واسطے  رینجرز‘ملیشیا‘فرانٹیئر کانسٹیبلری اور افواج پاکستان کی خدمات کی  ضرورت پڑتی رہتی ہے اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وطن عزیز میں نچلے کیڈر میں جو پولیس بھرتی کی جاتی ہے  اس میں حد درجہ سیاسی مداخلت ہوتی ہے اس لئے ضروری ہے کہ اس کی بھرتی کے طریقہ کار کو ری وزٹ کر کے اس کی بھرتی میں  سیاسی مداخلت کو روکنے کے لئے اسے  فول پروف بنایا جائے تاکہ اس میں صرف وہ افراد بھرتی ہوں جو کرمنلز کو ختم کرنے کی استطاعت رکھتے ہوں  ‘  کیا یہ حقیقت نہیں کہ نچلی سطح پر پولیس کیڈر کی بھرتی میں حد درجہ  مداخلت ہوتی ہے اس کے علاوہ ہربااثر سیاستدان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ اس کے انتخابی حلقے میں تھانیدار اس کی مرضی کا لگے حالانکہ یہ صوابدید صرف اور صرف آ ئی جی پولیس کی ہو نی چاہئے‘ ہمیں یاد ہے کہ آج سے  چند  سال قبل سٹریٹ کرائمز میں نیویارک دنیا کا بدنام ترین شہر  تھا‘ پر وہاں پر روڈی گلیانی نامی ایک میئر آیا جس نے ایسی حکمت عملی پر عمل کیا کہ نیو یارک  سے سٹریٹ کرائمز کا خاتمہ ہو گیا‘ہمارے بڑے بڑے  شہروں میں تعنیات   پولیس افسران کو اس حکمت عملی سے روشناس کرانے کی ضرورت ہے جو روڈی گلیانی نے نیویارک  میں اپنائی تھی۔ ڈویژنل اور ضلعی سطح پر سول اور پولیس میں تقرریاں کرتے وقت اس بات کا خیال رکھا جائے کہ  ڈی سی  اور ایس پی اس افسر کو تعینات کیا جائے کہ جس نے کم از کم تین برس تک بطور اے سی اور ڈی ایس پی کسی سب ڈویژن میں کام
 کیا ہو اور وہ اچھی عمومی شہرت کا مالک ثابت ہوا ہو‘ اسی طرح کمشنر اور ڈی آئی جی اس افسر کو نہ لگایا جائے جس نے کم از کم دو اضلاع میں بطور ڈپٹی کمشنر اور ایس پی کام نہ کیا ہو اور جو اچھی عمومی شہرت کا مالک نہ ہو افسوس کے ساتھ لکھنا پڑتا ہے کہ ان باریکیوں کا اب وطن عزیز میں خیال نہیں رکھا جا رہا اور اسی وجہ سے ملک میں گڈ گورننس کا فقدان ہے۔یہ بحث لا حاصل اور فضول ہے کہ کیا ٹرمپ فلسطینیوں کے لئے بہتر ثابت ہوگا  یا اس کی سیاسی  حریف خاتون‘بات بڑی سادہ ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ امریکی فرد  امریکہ کا صدر بن ہی نہیں سکتا جس کو امریکہ کے صہیونی  مالدار طبقوں کی سیاسی حمایت میسر نہ ہو‘ گزشتہ چند روز کے اخبارات اس خبر  کے ساتھ بھرے پڑے ہیں کہ سوشل میڈیا پر تنہا شخص کی جھوٹی خبر سے برطانیہ میں   بھی ماضی قریب میں  بدترین فسادات پھیلے  ہمارے ہاں بھی سوشل میڈیا نے ایک طوفان بدتمیزی مچا رکھا ہے اس کا نوٹس
  اگلے روز  آ رمی چیف نے بھی  اپنے ایک بیان میں لیا ہے‘ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ  آ خر سوشل میڈیا کو لگام دینے میں کیا امر مانع ہے  آزادی رائے کی آڑ میں کیا ملک میں بد تمیزی‘ بے حیائی‘ لسانیت‘ فرقہ واریت‘کردار کشی‘ مذہبی منافرت اور مسلکی جنگ کو فروغ دیا جا سکتا ہے‘  جو بد اخلاقی بد تمیزی مادر پدر آزادی‘ اخلاق باختگی‘بے حیائی سوشل  میڈیا پھیلا رہا ہے اس کی وضاحت کی ضرورت نہیں۔  اب  بھی وقت ہے کہ اس ضمن میں مناسب اقدامات  اٹھا کر حکومت سوشل میڈیا کو  کسی نہ کسی سنسرشپ کے تابع ضرور کرے یہ نہ ہو کہ اس کے ذریعے جو بے حیائی‘ بد تمیزی‘اور مادر پدر آزادی پھیلۂی  جا رہی ہے وہ نئی نسل کو لے ڈوبے‘ملک کا سنجیدہ طبقہ ارباب اقتدار  سے پر زور  سوال کر رہا ہے کہ کیا مٹ  جائے گی مخلوق تب انصاف کرو گے  تعلیمی اداروں میں منشیات کا بڑھتا ہوا رحجان وطن عزیز کے مستقبل کے لئے ایٹم بم  سے زیادہ مہلک ثابت ہو سکتا ہے  ہر سیاسی لیڈر  ملک کی نئی پود کو جدید ٹیکنالوجی سے روشناس کرانے کی بات کر رہا ہے جو درست بات ہے۔
 پر جس چیز سے ہمارے جوان طبقے کو سب سے زیادہ روشناس کرانے کی ضرورت ہے وہ اخلاقیات ہے کہ جس کا ہمارے معاشرے میں حد درجہ فقدان ہے تو اس کا بچوں کے کردار اور اخلاقیات پر کیا اثر پڑے گا اس کا اندازہ آپ خود لگا لیں۔