نجکاری کا عمل اور شفافیت 

ایک منچلے نے ہمیں ایک ایسا سوال لکھ بھیجا ہے کہ کم ازکم اس کا جواب ہمارے پاس تو نہیں ہے‘ سوال یہ ہے‘ ایک طرف تو ملک میں تیز رفتاری کے باعث روڈ پر حادثات میں خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے پر دوسری طرف ہم کاروں کی دوڑ ریسنگ racing کا سرکاری سطح پر اہتمام کر تے ہیں اور میڈیا بھی خوب اس قسم کی دوڑ کی پبلسٹی کر تا ہے کیااس قسم کے ایونٹس سے ڈرائیوروں کو تیزرفتاری سے گاڑی چلانے کی ترغیب یا شہہ نہیں ملتی ‘اب آتے ہیں چند دیگر اہم قومی اور عالمی نوعیت کے معاملات کی طرف جن پر ایک طائرانہ نظر ڈال لینی چاہئے۔ اگلا مہینہ سیاسی طور پر گرم مہینہ اس لئے ہو گا کہ اس میں 8 ستمبر کو وفاقی دارالحکومت میں پی ٹی آئی ایک بڑا جلسہ کرنے جا رہی ہے ‘ اگر حکومت اور جماعت اسلامی کے درمیان فوری طور پر بجلی کے بلوں کی رقم میں تخفیف کی بابت کوئی انڈر سٹینڈنگ نہ ہوئی تو جماعت اسلامی ملک بھر میں اگلے ماہ سے حکومت کے خلاف ایک تحریک چلانے کا ارادہ رکھتی ہے‘ ظایر ہے کہ حکومت اب اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ کسی مزید انتشار کا بوجھ اٹھا سکے۔ ادھر یو ٹیلٹی سٹورز کی بندش سے ملک میں ہزاروں افراد کی بے روزگاری کا مسلئہ بھی اٹھ کھڑا ہوا ہے ۔بنگلہ دیش نے بد ترین سیلاب کا ذمہ دار بھارت کو قرار دے کر کوئی اچھنبے کی بات نہیں کی ہے ‘بھارت اس قسم کی حرکات کئی عرصے سے پاکستان کے ساتھ بھی کرتا آ یا ہے ۔ خدا لگتی یہ ہے کہ سندھ کے اندرونی علاقے اور کراچی میں سٹریٹ کرائمز کو کنٹرول کرنے میں تو ایک عرصے سے صو بائی پولیس بے بس نظر آ رہی تھی اب کچھ عرصے سے پنجاب کی پولیس کو بھی اس کی ہوا لگ چکی ہے ‘قومی اخبارات میں وزارت داخلہ پنچاب کا ایک اشتہار کہ جس میں ڈاکوﺅں کے فوٹوز کے ساتھ ان کے سر کی قیمت 10 لاکھ سے بڑھا کر ایک کروڑ روپے کر دی گئی ہے اس حقیقت کی غماز ہے کہ ان ڈاکوﺅں کو نکیل ڈالنے میں وہاں کی پولیس اب تک ناکام دکھائی دیتی ہے۔ قومی ائر لائنز کی نجکاری کا سن کر ہر محب وطن پاکستانی کا دل دکھا ہے ‘وہ کل تک سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ پی آئی اے کا مالی طور پر یہ حشر بھی ہو سکتا ہے کیونکہ زیادہ دور کے عرصے کی بات نہیں جب اس کا شمار دنیا کی پہلی پانچ چھ بہترین ائر لائنز میں ہوتا تھا اور جس کے تعاون سے مشرق وسطیٰ کی ایک سے زیادہ ائر لائنز نے جنم لیا تھا پر اس کی دنیا کی ائر لائنز انڈسٹری میں بلند مقام حاصل کرنے کی وجہ یہ تھی کہ اسے ائر مارشل اصغر خان اور ائر مارشل نور خان جیسی شخصیات بطور چیئر مین میسر آئی تھیں ‘وہ صرف اور صرف میرٹ پر کام کرنا جانتے تھے‘ اب خدا کرے کہ اس کی نجکاری کا عمل دیانت داری سے سر انجام پائے اور اسے شفافیت سے مکمل کیا جائے‘یہ درست ہے کہ جہاں تک اشیائے خوردنی اور دیگر اشیا ئے صرف کی قیمتوں میں استحکام اور مارکیٹ میں دستیابی کا تعلق ہے اسکا انحصار سپلائی اور ڈیمانڈ کے فارمولے پر ہے‘ پر اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اگر ضلعی پرائس ری ویو کمیٹیاں ان کی قیمتوں پر عقابی نظر رکھیں اور ان کی مصنوعی قلت پیدا کرنے والوں‘ ان کا ذخیرہ کرنے والوں اور ان کی من مانی قیمتیں مقرر کرنے والوں کو قرار واقعی سخت سزائیں دیں تو مہنگائی پر کافی حد تک کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔سکواش کے سابق عالمی چیمپئن قمر زمان کے اس بیان سے شاید ہی کسی کو اختلاف ہو کہ سوشل میڈیا نے ملک کے نوجوان طبقے کو موبائل سیٹوں کے قریب اور جسمانی کھیلوں سے دور کر دیا ہے ‘ملک میں تیزی سے پھیلتی ہوئی شوگر کی بیماری اور عوارض قلب میں اضافہ قابل تشویش ہے‘ اس صورت حال کے لئے والدین بھی کافی حد تک ذمہ دار ہیں جنہوں نے چھوٹے چھوٹے بچوں کے ہاتھوں میں موبائل سیٹ تھما دئیے ہیں ‘جن سے ان کی آنکھوں کی بینائی بھی متاثر ہو رہی ہے اور صغیر سنی ہی میں انہوں نے چشمے لگا لئے ہیں۔ آج کے مخصوص عالمی مسائل اور ان میں پاکستان کے ممکنہ کردار کو مد نظر رکھتے ہوئے ضروری ہے ‘بعض ایسے ممالک ہیں کہ جن میں فارن آ فس کو اپنے بہترین کیرئر ڈپلومیٹس تعینات کرنے چاہئیں‘ مثلاً چین ‘روس ‘افغانستان ‘ترکی‘ ایران ‘انگلستان ‘امریکہ ‘ عرب امارات اور بھارت ۔ افغانستان اور ایران چونکہ ہم سے بارڈر شیئر کرتے ہیں اور آئے دن پاک افغان اور پاک ایران بارڈر پر کوئی نہ کوئی رولا اٹھتا ہے۔
 ‘لہٰذا ان دو ممالک میں ہمیں ایسے سفارتکار تعینات کرنے چا ہئیںکہ جو ان دونوں ممالک میں بسنے والے قبائل کے رسم و رواج‘ ان کی ماں بولی اور رواجات سے کما حقہ بلد ہوں۔تنگ آ مد بہ جنگ آ مد‘ اب ایران نے بھی افغانستان کے ساتھ اپنی سرحد پر باڑ لگانے کا فیصلہ کر لیا ہے‘ اس وقت ایران میں بھی پاکستان کی طرح افغانیوں کی ایک بڑی تعداد رہائش پذ یر ہے جو ایک محتاط اندازے کے مطابق 50 لاکھ کے لگ بھگ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔