نیرنگی سیاست 

انسان ذاتی پبلسٹی کا کس قدر بھوکا ہے اس کا مظاہرہ اس کی شکل و شباہت پر خوشی کے تاثرات سے بخوبی عیاں ہو جاتا ہے جب کیمرے کی آنکھ انہیں ریکارڈ کرتی ہے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ کسی بھی شعبہ زندگی بشمول سیاست میں کسی فرد کی عوامی مقبولیت کے پیچھے میڈیا کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے‘ میڈیا سے متعلق افراد سے دوستی ان کی کمزوری بن چکی ہے اور اسی طرح  ایک دوسرے کی ضرورت بن چکے ہیں‘ لگ یہ رہا ہے کہ آج کل مولانا فضل الرحمان صاحب کے ہاتھوں میں ترپ کا پتہ ہے کیونکہ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہ ان کی رہائش گاہ کا آج کل طواف کرتے نظر آ رہے ہیں‘ یاد رہے کہ آئینی ترمیم کے واسطے سینٹ میں حکمران جماعت کو دو تہائی اکثریت حاصل نہیں‘جے یو آئی کے پاس ترپ کا پتہ ہے‘جے یو آئی اگر اپوزیشن اتحاد میں جائے تو ترمیم ممکن نہیں‘اس صورت حال کو دیکھ کر مولانا ابوالکلام کا وہ تاریخی جملہ یاد آ تا ہے کہ سیاست میں نہ تو کوئی حرف آخرہوتا ہے اور نہ اس کے سینے میں دل۔سندھ اور پنجاب  کے کچے کے علاقوں میں ڈاکو راج ختم کرنے کے لئے وہاں پولیس چوکیوں کے قیام کا فیصلہ بلا شبہ ایک صائب فیصلہ ہے‘ پر ڈاکو راج وہ  ناسور ہے کہ جو ڈاکو بھی پکڑے جائیں ان کو قرار واقعی سزا دی جائے جن میں public hanging یعنی برسر عام پھانسی شامل ہو کہ اس کے بغیر اس ناسور کو ختم نہیں کیا جا سکے گا‘ اس ضمن میں حکومت کو  عدلیہ کا تعاون بھی درکار ہو گا۔ ان چند ابتدائی سطور کے بعد بعض تازہ ترین عالمی اور قومی امور پر ایک طائرانہ نظر ڈالنابے جا نہ ہوگا۔ امریکی صدارتی الیکشن میں اگلے روز ایک نئی صورت حال نے اس وقت جنم لیا جب جان کنیڈی کے بھتیجے رابرٹ کینڈی نے ٹرمپ کی حمایت کا اعلان کر دیا‘ اس پر کملا ہیرس کی حمایت کے متوقع ڈیمو کریٹک پارٹی کے حلقے اور کنیڈی خاندان  بھی حیران ہو گئے ہیں‘رابرٹ کینڈی کے اس اقدام کو روایات کے خلاف ایک بغاوت قرار دیا جا رہا ہے۔

 کیونکہ انہوں نے ری پبلکن امیدوار ٹرمپ کو گلے لگا لیا ہے‘حالانکہ کنیڈی خاندان کا ڈیمو کریٹک پارٹی کے واسطے خدمت کا ایک طویل ریکارڈ ہے‘اس اقدام کو پارٹی نظام کے اسٹرکچر میں تبدیلی کا پیغام سمجھا جا رہا ہے۔وزیر اعظم کی 2ارب سے زائد کے تمام ترقیاتی منصوبوں کی تھرڈ پارٹی ولیڈیشن کروانے کی ہدایت ایک صائب فیصلہ ہے  ان کا ای پروکیورمنٹ منصوبے پر عمل درآمد میں سست روی اور کام کے معیار اور پراسس کے نا مکمل ہونے پر اظہار ناراضگی بھی بجا ہے‘ یاد رہے کہ ای پروکیورمنٹ سے 10 سے 25   فیصد سرکاری خرچ کی رقم بچائی جا سکتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔