اب انہیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر 

سرداد عبدالرب نشتر کئی برس تک پنجاب کے گورنر رہے‘پرانے لاہورئیے بتاتے ہیں کہ ہر صبح ان کا فرزند جمیل نشتر سائیکل پر سوار ہو کر گورنرہاﺅس سے نکل کر کلاس اٹینڈ کرنے گورنمنٹ کالج لاہور جاتا جو گورنر ہاﺅس سے تقریباً ایک کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے‘ یہ وہی نشتر صاحب تھے کہ الیکشن لڑنے کے واسطے ان کے پاس پیسے نہ تھے اور ان کو پشاور میں واقع اپنا گھر بیچنا پڑا تھا‘ سید فریداللہ شاہ ایک سینئر بیوروکریٹ گزرے ہیں‘ انہوں نے ہمیں بتایا تھا کہ سابقہ این ڈبلیو ایف پی میں قیام پاکستان کے بعد چب پہلی کابینہ بنی تو اس میں پانچ وزرا ءتھے اور سرکاری گاڑیوں کے پول میں گاڑیاں بھی پانچ تھیں ان میں ایک تو وزیر اعلیٰ کے استعمال کے واسطے مختص کر دی گئی ‘باقی بچیں چار گاڑیاں اور وزراءپانچ تھے چنانچہ انہوں نے آپس میں یہ فیصلہ کیا کہ تا وقتیکہ صوبہ کے وسائل پانچویں گاڑی خریدنے کی اجازت نہیں دیتے ‘وزرا باری باری اپنے ضروری دوروں کے لئے ایک گاڑی استعمال کیا کریں گے اور اس فارمولے پر سال بھر عمل ہوتا رہا‘ یہ تھا ان میں قناعت کا جذبہ اسی قسم کے لوگ صحیح معنوں میں بانی پاکستان اور مفکر پاکستان کے خیالات کے مخلص ترجمان تھے‘ اس فہرست میں اگر اورنگزیب خان گنڈہ پور کا نام شامل نہ کیا تو ناانصافی ہوگی‘ اسی فہرست میں غلام اسحاق خان اور فرید اللہ شاہ بیوروکریٹس کے ناموں کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے کہ جن کی مالی دیانتداری اور قانون کی پاسداری ضرب المثل ہے‘ افسوس کہ اب نہ ان جیسے سیاست دان رہے اور نہ سرکاری افسر اور اسی ضمن میں عدلیہ کے درج ذیل ججز کے ناموں کا ذکر بھی ضروری ہے‘ جسٹس سر عبد الرشید‘ جسٹس کار نیلس‘ جسٹس رستم کیانی اور جسٹس صمدانی‘ اگر مندرجہ بالا قسم کی شخصیات تواتر سے ہمارے ایوان اقتدار کا حصہ رہتیں تو آج وطن عزیز گل گلزار ہوتا ۔ ان چند ابتدائی کلمات کے بعد درج ذیل ایشوز پر ایک نظر ڈالنا بے جا نہ ہو گا۔ آج کل امریکہ بھی کم وبیش اسی پالیسی پر کار بند ہے کہ جس پر ماضی قریب میں سوویت یونین کاربند تھا‘ جو پھر انجام کار اسے لے ڈوبی وہ پالیسی کیا تھی‘ وہ پالیسی یہ تھی کہ سوویت یونین نے اپنی چادر سے زیادہ اپنے پاﺅں پھیلا دیئے تھے اور بجائے اس کے کہ وہ اپنے ملک کے اندرونی ضروری مسائل کو حل کرتا اس نے خواہ مخواہ دور دراز کے ممالک میں پنگے لینا شروع کر دیئے تھے جو پھر وہ سنبھال نہ سکا اس ملک کے عوام اپنے حکمرانوں سے متنفر ہو گئے ‘آخر کار وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔ آج امریکہ میں ٹرمپ جیسے کوتاہ نظر لیڈر بھی سوویت یونین والی پالیسی کو اپنائے ہوئے ہیں اور اپنے وسائل کا زیادہ تر استعمال عالمی مسائل میں روس اور چین کو نیچا دکھانے پر خرچ کر رہے ہےں ‘ جس سے امریکہ کا اندرونی گورننس کا نظام بری طرح متاثر ہو رہا ہے اور اس کا فزیکل انفرا سٹرکچر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے ۔سپر پاورز میں صرف چین ایک ایسا ملک نظر آ رہا ہے کہ جس کی قیادت نے گزشتہ تیس برسوں میں چین کو زندگی کے ہر شعبے میں اتنی ترقی دلوائی ہے کہ جو اس میں گزشتہ سو سال میں نہیں ہوئی تھی اور کمال ہوشیاری سے اپنے مالی وسائل کو اپنے عوام کی فلاح وبہبود پر خرچ کیا ہے اور خوامخواہ دیگر ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کر کے اپنی توانائی اور پیسے کی بچت کی ہے۔جان کنیڈی کے بھتیجے رابرٹ کینڈی کی طرف سے ٹرمپ کی حمایتکے اعلان کو روایات کے خلاف ایک بغاوت قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ انہوں نے ری پبلکن امیدوار ٹرمپ کو گلے لگا لیا ہے ‘حالانکہ کنیڈی خاندان کا ڈیمو کریٹک پارٹی کے واسطے خدمت کا ایک طویل ریکارڈ ہے ‘اس اقدام کو پارٹی نظام کے اسٹرکچر میں تبدیلی کا پیغام سمجھا جا رہا ہے ۔وزیر اعظم شہباز شریف کی 2ارب سے زائد کے تمام ترقیاتی منصوبوں کی تھرڈ پارٹی ولیڈیشن کروانے کی ہدایت ایک صائب فیصلہ ہے ان کا ای پروکیورمنٹ منصوبے پر عمل درآمد میں سست روی اور کام کے معیار اور پراسس کے نا مکمل ہونے پر اظہار ناراضگی بھی بجا ہے‘ یاد رہے کہ ای پروکیورمنٹ سے 10 سے 25 فیصد سرکاری خرچ کی رقم بچائی جا سکتی ہے۔تنگ آ مد بہ جنگ آ مد‘ اب ایران نے بھی افغانستان کے ساتھ اپنی سرحد پر باڑ لگانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
‘ اس وقت ایران میں بھی پاکستان کی طرح افغانیوں کی ایک بڑی تعداد رہائش پذ یر ہے جو ایک محتاط اندازے کے مطابق 50 لاکھ کے لگ بھگ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔