واقعی ایسا ہی ہے؟

سنی سنائی بات نہیں بلکہ نہایت ثقہ ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت وائس چانسلر کی تنخواہ15لاکھ روپے مقرر کرنے جارہی ہے کہا جاتا ہے کہ اعلیٰ تعلیمی کمیشن نے اپنی سفارش کا مراسلہ وفاقی حکومت کو بھجوا دیا ہے مطلب جلد یا قدرے بدیر وائس چانسلرز صاحبان بھی بہتی گنگا میں خوب تر حصہ دار ہونگے البتہ اس حلوے میں ایک ہڈی کا تلخ تذکرہ بھی پایا جاتا ہے اور وہ یہ کہ شہنشاہانہ اقدام ملک بھر کیلئے نہیں بلکہ محض ان جامعات کیلئے ہوگا جس کا ایکٹ فیڈرل گورنمنٹ یعنی پارلیمنٹ کا منظور کردہ ہو‘مطلب صوبوں کی یونیورسٹیاں محروم رہیں گی‘بالکل اسی طرح جیسے گرانٹ کیلئے کبھی وفاق کے دروازے اور کبھی صوبے کے در پر دستک دے رہی ہیں‘ البتہ اس معاملہ میں یہ بات تاحال  وضاحت طلب ہے کہ وائس چانسلر کو ماہانہ15لاکھ روپے تنخواہ کہاں سے ملے گی‘ یعنی ادائیگی وفاقی حکومت کی تجوری سے ہوگی یا یونیورسٹی کے اکاؤنٹ سے؟ اگر اس شہنشائیت میں صوبوں کی یونیورسٹیاں بھی شامل کی جائیں تو سمجھ لیں کہ پھر صوبے بالخصوص جامعہ پشاور سمیت چند ایک پرانی جامعات کیلئے تو یہ ایک سنہرا خواب ہی رہے گا کیونکہ پرانی یونیورسٹیوں کے اکاؤنٹس تو پہلے سے خالی پڑے ہیں اگر ایسا نہ  ہوتا تو پشاور یونیورسٹی کے اساتذہ اور گریڈ17اور اس سے اوپر کے ملازمین کے گزشتہ مالی سال کے چار مہینوں کی تنخواہ میں اضافہ کے جبکہ ریٹائرڈ ملازمین کے پورے 9مہینوں کے بقایا جات تاحال واجب الادا نہ ہوتے‘یہ الگ بات ہے کہ یونیورسٹی ملازمین بالخصوص کلاس فور اور کلاس تھری اس بات کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں کہ اکاؤنٹس خالی پڑے ہیں بلکہ تنخواہ اضافے کے حصول کیلئے ہر سال تالہ بندی ہڑتال کے دوران تو یہ لوگ بڑے زور و شور سے یہ بات دہرا رہے ہیں کہ یونیورسٹی کے پاس پیسوں کی کوئی کمی نہیں بلکہ اکاؤنٹس بھرے پڑے ہیں 
 لیکن یونیورسٹی  حکومت سے پیسہ ہتھیانے کیلئے مالی بحران کا ڈھونگ رچا رہی ہے ہرچند کہ جامعہ کے شعبہ امتحانات کے واجبات میں اضافہ کیا گیا اور ساتھ ہی ایف اے‘ایف ایس سی‘ بی ایس اور پوسٹ گریجویٹ داخلوں کا سیزن بھی شروع ہوگیا ہے مگر یہ حقیقت ڈھکی چھپی نہیں کہ ان ذرائع سے ہونے والی آمدن سے تو یونیورسٹی کے اپنے ماہانہ اور  وہ بھی شاہانہ اخراجات بھی پورے نہیں ہوتے تو تنخواہوں‘ پنشن‘ مراعات اور بقایا جات کی ادائیگی کا کیا بنے گا؟ وفاقی حکومت کی طرف سے یکے بعد دیگرے صوبے کی جامعات کو تحریری طور پر آگاہ ہونے کے بعد کہ اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد اب وفاقی حکومت کی طرف دیکھنا چھوڑ  دیں یعنی آپ جانے اور صوبائی حکومت‘ جامعہ کی انتظامیہ بڑی بیچارگی کے عالم میں اعلیٰ تعلیمی کمیشن سے التجا کرتے کرتے جب تھک گئی تو صوبائی حکومت کے درپر دستک دینے لگ گئی اس ریہرسل کی سیریز میں فیکلٹی یعنی ٹیچرز ایسوسی ایشن بھی شامل رہی مگر حکومت کی طرف سے ہر بار یہی جواب سنا گیا کہ اعلیٰ تعلیمی اصلاحات کیلئے تشکیل دی گئی ٹاسک فورس کمیٹی کی رپورٹ اور جامعات ترمیمی ایکٹ2016ء میں مزید ترامیم کے بعد یونیورسٹیوں کے تمام مسائل حل ہو جائینگے مطلب یونیورسٹیاں سو فیصد متحرک اور اپنے اہداف یعنی فروغ تعلیم و تحقیق اور تربیت کی جانب گامزن ہو جائیں گی جبکہ تنخواہوں اور پنشن کی ادائیگی کیلئے مالی وسائل کے فقدان کا مسئلہ بھی نہیں رہے گا اگر واقعی ایسا ہی ہے تو پھر دیر کس بات کی؟ معلوم نہیں کہ انتظامیہ اور اساتذہ نے کس حد تک حکومت کی اس یقین دہانی کو ذریعہ اطمینان بنا دیا ہے؟ مگر حقیقت یہ ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوگا بلکہ یہ ساری باتیں محض طفل تسلی ثابت ہوں گی کیونکہ یہاں پر جو لوگ اقتدار میں آتے ہیں تعلیم ان کا اور ان کی ٹاپ انتظامیہ میں سے کسی کا بھی مسئلہ نہیں یونیورسٹی انتظامیہ اور اساتذہ نمائندے اس استفسار کی جسارت کیوں نہیں کرتے کہ حکومت اپنے بجٹ کے اس ہیڈ یا اکاؤنٹ کی نشاندہی تو کرلے جس میں اعلیٰ تعلیم یعنی یونیورسٹیوں کیلئے پیسے رکھے گئے ہیں؟۔