قرض کی پیتے تھے مے

آئی ایم  ایف نے جو تازہ ترین میٹنگز کا شیڈول جاری کیا ہے اس میں تو پاکستان کو دیئے جانے والے قرضوں کے بارے میں میٹنگ کی تاریخ کاذکر نہیں‘گو وزیر خزانہ یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ ستمبر میں پاکستان کوآئی ایم ایف  سے مزید ڈالرز ملنے کی امید ہے‘ وزیر اعظم نے ایک مرتبہ درست ہی کہا تھا کہ بھکاریوں کا انتخاب کرنے والا نہیں ہونا چاہئے‘اس شرمناک صورت حال سے ہم جتنا جلدی نکل جائیں بہتر ہوگا‘ یہ کشکول ہاتھ میں پکڑ کر بار بار قرضوں کے حصول کے لئے کبھی آئی ایم ایف تو کبھی چین‘سعودی عرب اور عرب امارات کے دروازے کھٹکھٹانہ ایک غیرت مند قوم کو زیب نہیں دیتا اور پھرہمارے اکثر حکمرانوں نے بیرونی قرضوں کا صحیح استعمال بھی تو نہیں کیا‘ غالب کا یہ شعرہم پرصادق آ تا ہے کہ قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں....رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
....اس طولانی جملہ معترضہ کے بعد حسب معمول بعض اہم عالمی اور قومی امور کے تذکرے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے‘ پر اس سے پیشتر ہم کو یہ بات لکھنے میں  کوئی عار نہیں کہ ہمارے روشن خیال علماء سلف کا یہ قول تھا کہ یہ نہ دیکھو کہ وہ کون ہے بلکہ یہ دیکھو کہ وہ کیا کہتا ہے انہوں  نے  لوگوں  کی فکری اصلاح اسی اصول کے تحت کی  جو خیالات ان کو صحیح نظر آئے ان کو انہوں نے مومن کا کھویا ہوا مال سمجھ کر خوشی خوشی قبول کر لیا، نہ ان کے دین میں خلل پڑا،نہ ان کے عقائد بگڑے  جو خیالات ان کو غلط لگے  ان کو انہوں نے دلائل سے رد کرنے کی کوشش کی مگر علماء کی یہ درخشاں روایت افسوس ہے کہ رفتہ رفتہ ختم ہوتی جا رہی ہے‘ جذباتیت‘ تنگ نظری ذہنوں پر اس قدر حاوی ہے کہ جدید فکر کی تازہ ہوائیں ادھر کا رخ کرتے ڈرتی ہیں۔کاش کہ ہم چین میں رائج عوام دوست پالیسیوں کو اپنے ہاں من و عن نافذ کر دیں تو کیا ہی اچھا ہو تاکہ اس ملک پر سے اشرافیہ اور مختلف مافیاز کی گرفت ڈھیلی پڑ جائے  کیونکہ خدشہ یہ ہے کہ اگر اس ملک پر ان کا راج جاری رہا، تو وہ دن دور نہیں۔ جب ان کا گریبان ہو گا اور عوام کا ہاتھ۔ بلوچستان میں اگلے روز دہشت گردوں نے پنجاب سے تعلق رکھنے والے جن افراد کو موت کے گھاٹ اتارا ہے اس کے پیچھے انہی لوگوں کا ہاتھ ہے جو نہیں چاہتے کہ سی پیک سے وطن عزیز کی معشیت اپنے پاؤں پر کھڑی ہو یہ دہشت گرد اس ملک کی بیخ میں پانی دے رہے ہیں‘ ہم کو یہ بات نہیں بھولنی چاہیے  کہ خاکم بہ دہن اگر ملک ہی نہ رہا تو اس میں بسنے والے کیا کریں گے؟لہٰذا پہلے پاکستان اور بعد میں سیاست ہونی چاہیے۔کیا کبھی متعلقہ ٹریفک پولیس کے اہلکاروں نے یہ جاننے کی کوشش بھی  کی ہے کہ نجی سیکٹرز میں جو ہزاروں بسیں سڑکوں پر پشاور سے کراچی تک دوڑ رہی ہیں  ان کے ڈرائیوروں کو بس مالکان اس روڈ کے درمیان نیند اور آ رام کر نے کے واسطے کچھ وقت بھی فراہم کرتے ہیں یا ان سے چوبیس گھنٹے کام لیتے رہتے ہیں‘یہ سوال ہم نے اس لئے پوچھا ہے کہ چونکہ ایسا نہیں ہو رہاجس سے حادثات رونما ہوتے ہیں۔

 اس لئے جب بھی کوئی روڈ حادثہ ہوتا ہے تو  اکثر اس نوع کی خبریں چھپتی ہیں کہ چونکہ ڈرائیور نیند کی حالت میں اونگھ رہا تھا اس کے اوسان خطا ہو گئے جو حادثے کا باعث بنے بعض ڈرائیور نیند کو بھگانے کے واسطے  نشہ بھی کرتے ہیں یہ بھی پھر ایکسیڈ نٹ کا باعث بنتا ہے۔